بہت دنوں بعد آپ کی عدالت میں آنا پڑا قابل احترام دوست فرخ شہباز وڑائچ کا شکوہ بھی یہی تھاکہ صفحہ قرطاس سے تم کٹ گئے ہو ان کا شکوہ بھی بجا تھا اس دوران مجھے شدت سے محسوس کیا گیا سراپا احتجاج لوگ ملے، لفظ اور باتیں سننے کو ملیں ایسے دوست بھی تھے جو شناسا تھے اجنبی تھے جب اُنہوں نے روزانہ صفحہ قرطاس پر مج ھے تلاش کیا تو غصے بھرے جملوں کی بوچھاڑ تھی، ہدف میری ذات تھی ! یہی سچی محبت تھی تسلسل ٹوٹنے کا مجھے بھی احساس ہوا۔لکھنے والے کی طاقت تو پڑھنے والے ہوتے ہیں نا ! مجھے آپ پر فخر ہے کہ مجھے پڑھ کرآپ کی کیفیت اس پانی کی طرح ہوتی ہے جو پرسکون ہوتا ہے جس میں کوئی کنکر نہیں گرتا!
تسلسل ٹوٹنے کی ایک وجہ وہ عظیم ہستی تھی جو شفیق باپ کی شکل میں ایک دوست، ایک غم خوار کی صورت میرے ساتھ ساتھ رہی وہ بچھڑی تو اندر سے بہت کچھ ٹوٹااور ابھی تک جُڑ نہیں پایا۔ خدائے بزرگ وبرتر اُنہیں جنت کے اُس گوشے میں جگہ دے جواُس عظیم ذات کے نزدیک انتہائی معتبر ہے۔ آمین! قلم ماں کی طرح باپ کی طرح ہوتا ہے اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لکھنے والا دوسروں کا برا نہیں سوچتا، ہرلکھنے والے کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔اُستادِ محترم جناب حافظ شفیق الرحمن کی صحبت نے بھی درس دیاکہ قلم کی حرمت کو بیچانہیں جا سکتا۔
Pen
بچپن میں سنا کرتا تھاکہ ”بڑے لوگ”بھی ہوتے ہیں توذہن میں اُنہیں دیکھنے کا تصور اُبھرتا، شعور کی آنکھ کھلی توپتہ چلاکہ ملک، سردار، چوہدری، خان ، مہر یہ بڑے لوگ ہیں۔ قلم ہاتھ میں آیا تو پتہ چلاکہ ان بڑوں کے جسموں پر صرف کپڑوں کی حیا ہے۔ مگر بظاہریہ ننگے ہیں۔ ان کی حویلیوں کی اوٹ سے انسانیت کی چیخیں اُبھرتی ہیں، دم توڑ دیتی ہیں ۔یہی لوگ میرے قلم کاہدف بنے آپ کا کارواں مجھے حوصلوں کی آکسیجن فراہم کرتارہا اور میرا قلم شعلے اُگلتا رہا۔ہرلکھنے والے کے سامنے ایک واضح مقصد ہوا کرتا ہے کوئی بھی تحریر بے مقصد نہیں ہوتی۔
اب اس مقصد کو سمج ھنا قاری کا کام ہے۔ لکھاری کاکام صرف اُتنا ہوتا ہے کہ وہ قاری کی عدالت میں حقائق کو من وعن پیش کرے۔ سلگتے مسائل سے اُلجھنا میرا مشغلہ ہے جب کسی پر ظلم ہوتے دیکھتا ہوں یا کسی مظلوم کی کہانی سنتاہوں تو ہرحساس ذہن کی طرح میں بھی کڑھتاہوں پھریہی گھٹن الفاظ کی شکل میں صفحہ قرطاس پر بکھرتی ہے کیاہوا شورش سے، غازی صلاح الدین شہید ، تک کا سفر آبلہ پا ہے خون آلود راہ گزر ہے یہ کالم لکھے جاتے رہیں گے جب تک ظالم ظلم سے بازنہیں آجاتا جب تک مظلوم کی آہیں فضامیں گونجتی رہیں گی جب تک میرے طبقے کے حقوق غصب کرنے والے حقوق نہیں لوٹاتے جب تک انسانیت اپنی بربادی کاماتم کرتی رہے گی میرا نحیف ونزار قلم ظالموں کوبے نقاب کرتا رہے گا۔میرایہ مشن ہے ،یہ ہرلکھنے والے کامشن ہے ،یہ مشن جاری رہے گا۔ آخرمیں یہی کہ زندگی پوری جگمگا ہٹوں اور اندھیروں میں گزر رہی ہے۔ ہاتھ اُٹھائیے گا کہ یہ اندھیرے چھٹ جائیں۔ سچ اور قلم کی آبرو باقی رہے ،لاج باقی رہے۔