تحریر : عماد ظفر نامعلوم افراد کا ہمارے وطن میں ہمیشہ سے ایک کلیدی کردار رہا ہے. سیاست کا میدان ہو یا صحافت کا ,مذہب کی بات ہو یا اخلاقیات کی. نامعلوم افراد ہر جگہ اپنے بیانیے یا اپنے عقائد و نظریات سے اختلاف کرنے والوں کا بندوبست کرتے نظر آتے ہیں. یہ نامعلوم افراد سیاست کے میدان میں “کنٹرولڈ ڈیموکریسی ” کے ذریعے اپنے اپنے پیادے اتارتے ہیں اور لولی لنگڑی جمہوریت کی ڈوریں پردے کے پیچھے سے ہلاتے ہیں. جب تلک جمہوری بساط کے کھلاڑی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں تب تلک “کنٹرولڈ ڈیموکریسی” پولیو کے مریض کی مانند لڑھک لڑھک کر سفر کرتی رہتی ہے جہاں کہیں جمہوری بساط کے مہرے شطرنج میں پیادہ بننے کے بجائے بادشاہ بننے کا سوچیں وہیں نامعلوم افراد کی جانب سے یا تو جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جاتی ہے یا پھر پراپیگینڈے کے دم پر منتخب رہنماوں کی کردار کشی کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کو جمہوریت سے ہی متنفر کروا دیا جاتا ہے. ایسے افراد جو جمہوریت کے حق میں بولنے یا لکھنے کی جرات کرتے ہوئے نامعلوم افراد کے بیانیے کو دلیل کے دم پر مسترد کرنے کی جرات کرتے ہیں تولاپتہ ہو جاتے ہیں یا پھر احمد نورانی کی مانند دن دہیاڑے نامعلوم افراد کے ہاتھوں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد ہسپتالوں کے ایمرجینسی وارڈز میں پڑے ملتے ہیں. یہ نامعلوم افراد امور سلطنت میں دخل دینے کے علاوہ افراد کے ذاتی عقائد میں بھی دخل دینے کاشوق رکھتے ہیں اور جہاں کوئ انہیں عقل و دلیل پر مبنی نظریات کا پرچار کرتا دکھائ دے اسے توہین مذہب کے نام پر ملاوں سے یا پھر جتھوں کے ہاتھوں توہین مذہب کا شکار کراو دیتے ہیں.اور تو اور معاشرے میں خود ساختہ اخلاقیات پیدا کرنے اور عوام کو بنیادی جبلتوں سے ہٹ کر زندگی کئی صدیوں پہلے کے انسان کی مانند بسر کروانے میں بھی ان نامعلوم افراد کا انتہائ گہرا کردار ہے.
اگر یہ کہا جائے کہ وطن عزیز کی تاریخ ہی نامعلوم افراد کے گرد گھومتی ہے تو غلط نہ ہو گا. وطن عزیز کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ایک نامعلوم سمت سے آئ ہوئ نامعلوم گولی کا شکار ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے تھے. نامعلوم افراد نے ہی شہر قائد کراچی کو جرائم کی بھٹی میں جھونکنے کا کردار ادا کیا. حکیم سعید بھی نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بنے. حامد میر کو بھی نامعلوم افراد نے کراچی میں ہی بارود سے لہولہان کر ڈالا تھا. معروف صحافی عمر چیمہ بھی نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا ہو کر ٹارچر بھگتتے رہے . شہزاد سلیم تو نامعلوم افراد کے ہاتھوں جان ہی گنوا بیٹھا.سبین محمود کو بھی نامعلوم افراد نے اس کے گھر کے باہر ہی گولیوں سے بھون ڈالا تھا . اور تو اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناالہ کو بھی ایک زمانے میں نامعلوم افراد نے اغوا کر کے بدترین ٹارچر کا نشانہ بنایا تھا. . کمال کی بات یہ ہے کہ نامعلوم افراد کو سب اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں لیکن ان کا نام لینے کی جرات کوئ نہیں کرتا. آخر کار سب کواپنی اپنی زندگیاں عزیز ہوتی ہیں. نامعلوم سمت سے آتی گولی یا نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا ہو کر لاپتہ ہو جانے کا خوف کسی بھی صحافی , دانشور یا سیاست دان کو چپ رکھنے کیلئے کافی ہوتے ہیں. اور اگر احمد نورانی جیسے سرپھرے پھر بھی نہ مانیں تو نامعلوم افراد کا حملہ انہیں تحفے میں دے دیا جاتا ہے.
نورانی تو پھر بھی خوش قسمت ٹھہرا کہ کم سے کم نامعلوم افراد نے اسے سلیم شہزاد یا سبین محمود کی مانند ابدی نیند نہیں سلایا بلکہ چاقووں اور لوہے کے راڈ سے زخمی کر کے اسے کم سے کم زندہ تو چھوڑ دیا. نورانی پر حملے کا دن یقینا نامعلوم افراد کیلئے انتہائی باعثِ مسرّت اور اطمینان دہ ہو گا کہ انہوں نے ایک ناہنجار صحافی کو اپنے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اور ایک تیر سے دو شکار بھی کر ڈالے. نورانی پر حملے کے بعد اب مزید سرکش اور بد تہزیب صحافی اور دانشور جو کہ نامعلوم افراد کے کردار کو بے نقاب کرنے کی ہمت جٹا رہے تھے اب ڈر اور خوف کا شکار ہو کر خاموشی کو ترجیح دیں گے. نامعلوم افراد کا سب سے بڑا ہتھیار “خوف” ہے .اس خوف کو بنیاد بنا کر نامعلوم افراد نے صرف سیاست یا صحافت ہی نہیں بلکہ پورے وطن کو ایک غیر محسوس طریقے سے عرصہ دراز سے یرغمال بنا رکھا ہے.
جناح کا پاکستان تو اس کی وفات کے فورا بعد نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا ہو کر لاپتہ ہو گیا تھا اور آج تک لاپتہ ہی ہے. نہ کوئی گمشدگی کی ایف آئ آر درج ہوئ اور نہ ہی کہیں جناح کے لاپتہ پاکستان کے مقدمے کی شنوائ ہونے پائ. انتہائ آہستہ آہستہ نامعلوم افراد نے جناح کے پاکستان کی نظریاتی اساس کو یرغمال بنایا اور اس کی جگہ ایک خود ساختہ اور کھوکھلی بنیاد پر وطن عزیز کی مصنوعی نظریاتی بنیاد کی از سر نو تعمیر کی. اب جب اکیسویں صدی میں علم و آگہی کے دور میں یہ کھوکھلی بنیاد از خود کمزور ہو کر زمین بوس ہو رہی ہے اور اس امر کی جانب واضح اشارہ دے رہی ہے کہ جناح کے اصلی پاکستان کو بازیاب کروائے بنا آگے کا سفر ناممکن ہے تو یہ نامعلوم افراد اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے آنکھیں بند کر کے احمد نورانی اور اس جیسے مزید سرپھرے جو جناح کے پاکستان کو نامعلوم افراد کے چنگل سے بازیاب کروانا چاہتے ہیں ان کو خاموش کروانا چاہتے ہیں.
نامعلوم افراد شاید یہ دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وقت کو جامد نہیں کیا جا سکتا . کاش نامعلوم افراد یہ بات سمجھ سکتے کہ خوف کے دم پر آپ کسی کو یرغمال تو بنا سکتے ہیں لیکن اسے اپنا نہیں بنا سکتے. انسانوں کے باہمی رشتے ہوں یا پھر فرد اور ریاست کا رشتہ یہ تمام تعلق محبت عزت اور برابری کے دم پر قائم رہتے ہیں. خوف کی بنیاد پر تو ایک گھر یا ایک خاندان کو ہمیشہ کیلئے یرغمال نہیں بنایا جا سکتا ریاست یا ملک تو بہت دور کی بات ہے. ہو سکتا ہے وقتی طور پر نامعلوم افراد پھر سے خوف کے دم پر شور کرتی آوازوں کو چپ کروانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن یہ خوف اور ڈر کا حربہ کیا ہمیشہ کارگر رہے گااس کاجواب آنے والا وقت بہت جلد دے دے گا اور وقت کا جواب نہ تو کسی خوف کی وجہ سے کسی بھی مصلحت کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے جواب کو نامعلوم افراد طاقت کے دم پر یرغمال بنا سکتے ہیں. جناح کے پاکستان کی بازیابی اور نقاب پہن کر اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں کو کچلنے کا سلسلہ بند کر کے ہی ریاست کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے.بصورت دیگر وقت کا جواب سننے کی تاب شایدنامعلوم افراد کو بھی نہ ہونے پائے گی.