بے نام مسافر

Watching Movie

Watching Movie

اس طرح تنگدستی ہو گئی ہے ریاض
کہ جسم کو اب کوئی چھوتا ہی نہیں

تحریر: محمد ریاض بخش
اچھا خاصا اپنے کمر میں بیٹھ کے مووی دیکھ رہا تھاکہ کچن سے امی کی آواز آئی ریاض جائو بیٹا بازار سے روٹیاں پکڑا لائو۔۔سڈ سا چہرہ بنا کر گھر سے باہر نکلا سردی محسوس ہوئی تو واپس گھر بھاگا جیکٹ پہنی اور روٹیاں لینے نکلا آیامیرے گھر کے پاس ہی کیولیری مارکیٹ ہے آج سچ میں سردی زیادہ ہے یا شاہد مجھے لگ رہی ہے۔

خالد مسجد سے تھوڑا سا پہلے جو روڈ وہ میں غلط سائڈ سے کراس کرنے لگا تو میری نظر ایک مرد عورت پے پڑی جو سڑک کنارے اپنے بچوں کو لے کر بیٹھے ہوئے تھے میں نے بایئک کی ریس تھوڑی کم کی اور اپنے ماتھے پے ہاتھ مارتے ہوئے کہا کیا ہوگا ان لوگوں کا۔۔۔تندور پے گیا روٹیاں لی واپس پھر واہی سے گزرے لگا کہ مجھے خیال آیا ان لوگوں کو کچھ دے ہی دیتا ہوں۔اُن لوگوں کے پاس بایئک روکی جیب میں ہاتھ ڈالا ٠٥ کا نوٹ اُن کو دیتے ہوئے بندے کو کہا کہ بھائی خدا کا خوف کرو چھوٹے چھوٹے بچے ہے جن کو سردی میں لے کر بیٹھے ہو۔۔۔

Poor Family

Poor Family

اس بندے نے میری بات کاٹتے ہوئے ایک عجیب سا جواب دیا جواب یہ تھا۔۔بھائی خدا کا ہی خوف ہے ورنہ یہ میری بیوی کسی اور کے ساتھ سوئی ہوتی اور میں ان بچوں کو لے کر کسی پل کے نیچے بیٹھا ہوتا۔میری زبان کو جیسے تالالگ گیا کچھ بول ہی نا سکا ۔میں نے اندازا لگایا بندے کی عمر کوئی 35 سال ہو گئی عورت کی ٠٣ سال سے کم ہی ہوگئی تین اُن کے بچے تھے ایک ماں کی گود میں سو رہاتھا دوسرا باپ کے تیسرا اُن دونوں کے درمیان ۔تینوں بچوں کی عمر ٧ سال سے ذیادہ نا تھی۔آخر میں نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا بھائی ایسے کیوں کہہ رہے۔۔اُس بندے نے پہلے تو تھوڑی سی باعث کی مگر پھر ایک لمبی کہانی سنا دی ذیادہ تو مجھے سمجھ نہیں آیا جو سمجھ آیا وہ آپ بھی سنے۔۔نام عمر چکوال کا رہنے والا۔عمر لاہور میں ایک کوٹھی میں خانسامے کی نوکری کرتا تھا۔

شادی ہوئی رب نے تین بچوں سے نوازا۔۔عمر کا جب تیسرا بچا ہوا تب عمر کی بیوی بیمار ہو گئی اور بچا بھی آپریشن سے ہوا عمر کی بیوی کافی بیمار رہنے لگ گئی عمر کے پاس جو تھا وہ اپنی بیوی پے لگا دی ۔۔کوٹھی والے تنگ آہ گئے اور عمر کو یہ کہہ کر نوکری سے نکال دیا کہ ہمیں ابھی خانسامے کی ضرورت نہیں ہے جب ہمیں چاہیے ہوگا تب آپ کو بتا دے گے ۔۔دس سال عمر جس کوٹھی میں کام کرتا رہا اُنہوں نے بڑی آسانی سے عمر کو نوکری سے نکال دیا۔بچارہ عمر گائوں چلا گیا۔تین دن بعد کوٹھی والوں کی کال آئی کہ ہمارا ایک رشتہ دار ہے اُن کو خانسامے کی ضرورت ہے اگر آپ نے نوکری کرنی ہے تو آہ جائے مگر اُن کی ایک شرط ہے کہ آپ اپنے بیوی بچوں کو گائوں میں ہی چھوڑ آے۔

Job

Job

۔عمر نے اُن سے کہا کہ باجی آپ صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ آپ ہی مجھے واپس بلا رہی ہے مگر میرے بیوی بچوں کو نہیں کوٹھی والوں نے کہا کہ ہاں اگر کام کرنا ہے تو اپنے بچوں کو گائوں میں ہی رہنے دو عمر نے کہا ٹھیک ہے آپ مجھے کچھ ماہ کی تنخوا ہ ایڈوانس میں دے دو تا کہ میں اپنے بچوں کا کہی رہنے کا بندوبست کر سکوں کوٹھی والوں نے انکار کر دیا۔

میں نے کافی جگہ کوشش کی نوکری کے لیے مگر بیمار بیوی اور بچوں کو دیکھ کر کوئی نوکری نہیں دیتا۔اور ان کے بنا میں رہے نہیں سکتا گائوں رہنے کے لیے اچھی جگہ نہیں ہے۔اب میں دن کو سگنل پے گاڑیاں صاف کرتا ہوں رات کو ہم کسی روڈ کنارے بیٹھ کر اپنی رات بسر کرتے ہے ۔آپ کی طرح کچھ اچھے لوگ ہے جو ہماری مدد کر دیتے ہے جس سے ہمارہ گزرا چل رہا ہے۔۔۔

عمر نے اور بھی کافی باتیں بتائی مگر وہ میں لکھنے کا موڈ میں نہیں ہوں۔ خیر عمر کو تو میں اپنے ساتھ گھر لے آیا کیوں کہ آج ہی میرے ہمسایوں نے مجھے خانسامے کا کہاتھا۔اچھی خاصی بھوک لگی ہوئی تھی عمر کی باتوں نے وہ مار دی امی سے بھی کافی ڈانٹ سننی پڑی ۔یہ لکھنے کا میرا یک مقصد ہے وہ یہ کہ ایک بند اپنی پوری زندگی کوٹھی والوں کی غلامی میں گزر دیتا ہے اُن کے اچھے بُرے وقت میں ساتھ دیتا ہے کیا اُن کو نہیں چاہے کہ وہ بھی عمر جیسے انسان کا برُے وقت میں ساتھ دے ؟؟؟؟آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔۔

Muhammad Riaz Bakhsh

Muhammad Riaz Bakhsh

تحریر: محمد ریاض بخش