ناجائز تجاوزات کا خاتمہ اور عوامی توقعات

Illegal Encroachment

Illegal Encroachment

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری

وطن عزیز میں قصبات سمیت چھوٹے بڑے شہروں خاص طور پر رہائشی، کاروباری علاقوں میں سرکاری جگہ پر ناجائز تعمیر یا قبضہ کرنے کواکثر معمولی بات سمجھا جاتا ہے بعض ناجائز قابضین نے تو ایسا بھی کیا کہ گھر یا دوکان بنا کر آگے فروخت کر دی اور خریدنے والا اپنی جمع پونجی سے توہاتھ دھو ہی بیٹھاساتھ ساتھ سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرنے کے جرم میں بھی دھر لیا گیا سرکاری املاک ،پبلک مقامات (پارک ،ریلوے اسٹیشن ،بس اسٹینڈ وغیرہ )کو بے دردی سے استعمال میں لانا اور اس پر قبضہ جما لینا ہمارے معاشرے میں عام طور پرقابل سزا جرم تصور نہیں کیا جاتا اگرچہ پاکستانی قانون میں اس قسم کی حرکت کے مرتکب افراد کے لئے نرمی کی قطعاََکوئی شق نہ ہے اور ایسے افراد کے لئے سخت ترین سزائیں موجود ہیں بطور مسلمان دین اسلام کی تعلیمات میں سرکاری املاک یا جگہ پر ناجائز قبضہ کرنے کی سختی سے نا صرف ممانعت ہے بلکہ ایسے ناجائز قابضین کے خلاف سخت احکامات ہیں کسی دوسرے کی چیز کو اُسکی مرضی کے بغیر استعمال کرنے کو پیارے نبی حضرت محمد ۖ نے حرام قرار دیا ہے، سرکاری اشیاء کاناجائز استعمال حقیقت میں پوری قوم کی حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔

مفتی تقی عثمانی کی ایک تحریر کے مطابق “سرکاری اشیاء برسر اقتدار افراد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ملکیت ہوتی ہیں اور ان کا ناجائز استعمال صرف کسی ایک شخص کی نہیں سارے عوام کی حق تلفی ہے اور یہ ”حقوق العباد” کی اس قدر نفی ہے کہ اس میں اگر کوئی حق تلفی ہو جائے تو اس گناہ کی معافی انتہائی مشکل ہے حقوق العباد کے گناہ صرف توبہ استغفار سے معاف نہیں ہوتے بلکہ ان کے معافی کے لئے اس شخص کا معاف کرنا ضروری ہے جس کا حق پامال کیا گیا اب اگر وہ شخص ایک ہو اور معلوم ہو تو اس سے معافی مانگی جا سکتی ہے لیکن سرکاری املاک کے حق دار چونکہ سارے عوام ہیں اس لئے اگر کبھی ندامت اور توبہ کی توفیق ہو تو آدمی کس کس سے معافی مانگتا پھرے گا؟” سانچ کے قارئین کرام !ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ضلع یا تحصیل میںاگر کوئی جان پہچان والا افسر تعینات ہو جائے یا کسی بر سر اقتدار پارٹی کا مقامی لیڈر آپ کے ساتھ ہے تو سرکاری املاک خاص طور پر سڑکوں ،گلیوں پر ناجائز قبضہ کو جائز بنا دیا جاتا ہے۔

کرپشن نے ایسے ناجائز قابضین اور انکو تحفظ فراہم کرنے والوں کے لئے مزید آسانیاں پیدا کر دی ہیں رشوت کے بل بوتے پر سرکاری املاک پر قبضہ جمائے رکھنے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں ناجائز قابضین اور ناجائز تجاوزات کے خلاف سخت ایکشن لینے کے احکامات جاری کئے پچھلے ایک ہفتہ کے دوران ناجائز قابضین سے سرکاری زمین وا گزار کرانے کے ساتھ ساتھ کچی آبادیوں ،قبرستانوں بازاروں میں کاروائیاں کرتے ہوئے انتظامی افسران نے سینکڑوں ایکڑ زمینوں پر قبضے ختم کروا لئے جو کہ ایک احسن اقدام ہے لیکن اس دوران کچی آبادیوں کے مکین اور بعض علاقوں کے دوکانداروں نے احتجاج کیا کہ وہ اس جگہ پر تیس پنتیس سال سے رہائش پزیر ہیں انھیں کسی نوٹس اورمناسب وقت دیئے بغیر بے گھر کر دیا گیا ہے جو کہ انتظامی افسران اور انکے عملہ کی جانب سے ظلم وزیادتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتنے طویل عرصہ سے یہ قابضین بغیر کسی سرکاری افسر یا متعلقہ عملہ کی آشیر بادکے بغیر ناجائز قابض رہے ہوں اکثر جگہوں پر سننے میں آیا کہ یہ ناجائز قابضین باقاعدہ رشوت کی صورت میں متعلقہ اداروں کے ملازمین کو بھتہ دیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے اُنھیں پہلے سرکاری زمینوں سے نہیں اُٹھایا گیا۔

یہ الزام کافی حد تک درست ثابت بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بازاروں میں تیس فٹ چوڑی سڑکیں جب گزرنے کے لئے تین فٹ کی بھی نہ رہیں تو اس بات کو تقویت ملتی ہے دوکانوں کے تھڑوں سے آگے دس دس فٹ تک سامان رکھنے والوں کو عملہ تہہ بازاری نے آغاز میں ایسا کرنے سے کیوں نہ روکا؟ ماضی میں قائم ناجائز تجاوزات کو گرانے کے لیے آنے والوں نے اِکا دُکا کاروائیاں کر کے ادھورا کام کیوں چھوڑا؟ اورکبھی کبھی چند دن کے لئے ناجائز قابضین کو روکے رکھنے کے بعد پھر اجازت کیسے دے دی ؟ قصبوں ،دیہاتوں میں توگزرنے والی گلیاں تک بند کر کے وہاں پر قبضہ جما لیا جاتا ہے ،میرے شہر اوکاڑہ میں گزشتہ چند دونوں سے ضلعی انتظامیہ نے ناجائز قابضین خاص طور شہرمیں ناجائز تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں جوکہ ایک اچھا اقدام ہے خاص طور پر قبرستانوں میں ناجائز بنائی گئی تعمیر کا خاتمہ ضلعی انتظامیہ کا ایک اچھا قدم کہا جارہا ہے یہاں پر ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض دوکانیں تحصیل میونسپل کمیٹی نے آج سے تقریباََ تئیس سال پہلے کچھ مارکیٹوں کو ختم کرنے کے بعد وہاں کے دوکانداروں کو متبادل کے طور پر دی تھیں جنھیں اب ناجائز قرار دیتے ہوئے گرا دیا گیا جس پر وہاں کے دوکانداروں نے احتجاج بھی کیا خاص طور پر پاوا مارکیٹ کا دیپالپور روڈ سے اکبر روڈ پر آج سے تئیس سال پہلے منتقل ہونا اوراب ناجائز تجاوز ات کہہ کر گرا دینا غریب دوکانداروں کے ساتھ یقینی زیادتی قرار دی جا سکتی ہے۔

شہر کے بازاروں میں تنگی کا سبب سینئر شہری یہ بھی بتاتے ہیں کہ رہائشی علاقے کمرشل بن جانے کے بعد گھروں کے سامنے تھڑوں پر پہلے قبضہ کیا گیا اور وہاں سٹال لگا دیئے گئے بعد ازاں گلیوں میں ہاتھ ریڑھی والوں نے ناجائز قبضے کر لیے جس سے وہاں سے گزرنا محال ہوتا گیا ڈپٹی کمشنر رضوان نذیر نے ضلع کی تینوں تحصیلوں اوکاڑہ،رینالہ خورد اور دیپالپور میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کی نگرانی کرتے ہوئے جان مولا قبرستان ،شیر ربانی ٹائون ،کوٹ امیر علی شاہ قبرستان سے ملحقہ مارکیٹ سمیت ،مرکزی قبرستان میں ناجائز تعمیرکو گروا دیا اینٹی انکروچمنٹ سکواڈ بلدیہ اوکاڑہ نے ٹھنڈی سڑک (تحصیل روڈ)،ایم اے جناح روڈ ،اکبر روڈ ،دیپالپور روڈ پر حدود سے تجاوز کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے غیر قانونی سائن بورڈ ز سمیت دیگر سامان قبضہ میں لے لیا ۔اسسٹنٹ کمشنر رافعہ قیوم کی نگرانی میں جی ٹی روڈ 4/4Lنہر نزد ملٹری فارم فیکٹری قبرستان کی جگہ پر بنائی گئی ناجائز دکانیں اور ستگھرہ موڑ پر سرکاری زمین پر بنائی گئی۔

ناجائز تعمیرات کو گرا دیا اس موقع پر پولیس،بلدیہ کا انٹی انکروچمنٹ عملہ اور ریونیو کا عملہ بھی موقع پر موجود رہا ،اسی طرح رینالہ اور تحصیل دیپالپور کے علاقوں میں بھی بلا امتیاز کاروائیاں جاری ہیں جبکہ بعض متاثرین کا کہنا ہے کہ تہہ بازاری کا عملہ بعض قابضین کو چھوڑ کر امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس سلسلہ میں راقم نے سیاسی وسماجی شخصیت سینئر ایڈووکیٹ محمد اسلم مغل سے حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے بارے پوچھا تو انکا کہنا تھا” بیوروکریسی چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات کا غلط استعمال کر رہی ہے ، ناجائزتجاوزات گرانے کی آڑ میں غریب سے اس کی روزی روٹی اور چھت چھینی جارہی ہے، وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار فوری نوٹس لیںمحمد اسلم مغل ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات کے مطابق سرکاری اراضی پر قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈائون اور ناجائزتجاوزات ختم کرنے کا حکم ہے۔

جبکہ بیوروکریسی چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات کو ہوا میں اُڑا رہی ہے کچی آبادیوں پر آپریشن کر کے نا صرف غریب سے اُس کی چھت اور روزی روٹی کھینچی جا رہی ہے بلکہ بیوروکریسی عوام اور موجودہ حکومت میں تنائو کا سبب بھی بن رہی ہے اُن کا کہنا تھا کہ اوکاڑہ شہر میںاکبر روڈ سے ملحقہ کچی آبادی اور دوکانیںعرصہ 30سال سے قائم تھیں اُن کو توڑنے کا کوئی جواز نہ بنتا تھا لیکن غریب عوام کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی کی گئی ہم ایسے ہرعمل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور وزیراعظم عمران خان اس عمل کا فوری نوٹس لیں ” سانچ کے قارئین کرام !سرکاری اراضی پر قبضے کو کسی بھی صورت اچھا عمل تو قرار نہیں دیا جاسکتا ہاں البتہ کچی آبادی کے مکینوں کو باقاعدہ قانونی شکل دی جاسکتی ہے تاکہ غریب چھت سے محروم ہو کر دربدر نہ ہوں اور انتظامیہ کو آئندہ کے لئے ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی کہ پھر سے یہ قابضین سر گرم نہ ہو سکیں ایسا نہ ہو کہ آج بازاروں میں پانچ پانچ فٹ کا ناجائز قبضہ چھوڑ کراپنی جگہ پر سمٹ جانے والے چند ہفتوں بعد سات سات فٹ پر قابض ہو جائیں۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری