عام روایت سی بنتی جا رہی ہے کہ پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے خلاف اُس وقت کارروائی کی جاتی ہے جب بیرون ملک کوئی ”واقعہ” رونما ہوتا ہے۔ عالمی یا پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کسی بھی ایسی تنظیم کے خلاف قانونی کارروائی یا چارہ جوئی کرنا اہمیت کا حامل امر ہے، کیونکہ اس سے مملکت کی پالیسی جڑی ہوتی ہے، تاہم اس حوالے سے عمومی تاثر یہ بن جاتا ہے کہ جب امریکا، افغانستان، ایران یا بھارت کی جانب سے کسی ایسے واقعے میں پاکستان میں موجود ایسی تنظیموں پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں جو اُن کے نزدیک کسی دہشت گردی کے ”واقعے” میں ملوث ہیں تو ریاست کو شواہد کے فوراً بعد اُن تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی کرلینی چاہیے۔ لیکن دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ اس ضمن میں معاملات ”سست روی” کا شکار ہوتے ہیں اور بیرونی دبائو پر بغیر کسی ثبوت ”کریک ڈائون” شروع کرتے ہیں۔ اس کا فوری تاثر یہی قائم ہوتا ہے اگر کسی جگہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا، تو بیرونی دبائو کی وجہ سے فلاں تنظیم یا فرد پر الزام لگا، لہٰذا اُسے گرفتار کرلیا یا نظربند کردیا جاتا ہے۔
بلاامتیاز کسی بھی فرد یا تنظیم کے خلاف کارروائی ہو، اس سے کسی بھی پاکستانی کو انکار نہیں، لیکن اس بات پر تحفظات پیدا ہوجاتے ہیں کہ اگر تنظیم کالعدم ہے تو وہ کوئی بھی ہے، اُسے پاکستان میں کام کرنے کی اجازت کیوں تھی؟ اگر کالعدم تنظیم کام نہیں کررہی تو پھر اُن کے اراکین کو کسی بھی ناخوشگوار واقعے پر بیرونی دبائو کی وجہ سے کیوں زیر حراست لیا جاتا ہے۔ ذاتی رائے کے مطابق یہ درست طریقہ نہیں۔ فرقہ واریت کے نام سے کئی تنظیمیں نام بدل کر کام کررہی ہیں، یا تو ایسی قانون سازی کی جائے کہ اُن افراد کے کسی بھی سیاسی یا سماجی عمل پر مستقل پابندی لگادی جائے اور میڈیا میں بھی اُن کے بیانات اور جلسے جلوس وغیرہ پر پابندی ہو۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا، تنظیم کالعدم قرار دی جاتی ہے تو وہ نام بدل لیتے ہیں۔ پاکستانی قانون کے تحت اُن پر کوئی الزام بھی ثابت نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کئی کئی مہینے، برسہا برس مقدمات چلتے رہے ہیں۔ بعض ممالک کا دبائو قائم رہتا ہے اوراہم افراد کو نظربند بھی رکھا جاتا ہے۔
اسے کسی بھی مسئلے کا مستقل حل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے تو راقم کے خیال میں مملکت کی مزید بدنامی ہوتی ہے اور ملک دشمن عناصر کا پروپیگنڈا تقویت پکڑتا ہے کہ اُن کا جھوٹا الزام درست تھا۔ ریاستی اداروں کو اس حوالے سے مستقل بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ”تاخیر” یا کوئی بھی”وجوہ” ہوں، ہمیں اس کا ادراک کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں مقامی حریت پسند اپنی آزادی کی تحریک چلارہے ہیں۔ پاکستان ان کی کھلی اخلاقی و سفارتی حمایت کرتا ہے، لیکن کوئی ملک پروپیگنڈا مہم کے تحت خودساختہ الزامات عائد کرتا ہے تو جب تک وہ الزامات ثابت نہ ہوجائیں، ریاست کو احتیاط کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔
بھارت اپنے ہاں کئی خودساختہ ڈرامے کرکے سارا الزام پاکستان پر عائد کردیتا ہے۔ پاکستان نے عالمی طاقت کے دبائو پر خصوصاً کشمیریوں کی حمایت کرنے والی تنظیموں پر پابندی عائد کی، کیونکہ امریکا اور اقوام متحدہ نے اُن پر پابندی لگائی، لیکن اُن پر الزامات کون ثابت کرے گا؟ حالیہ پلوامہ واقعہ پاکستان کے سر تھوپ دیا گیا۔ پھر کشمیری حریت پسندوں کی حمایت کرنے والی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون شروع کردیا گیا، کیونکہ بھارت، امریکا اور اقوام متحدہ نے ان پر الزام لگایا ہے، لیکن کیا واقعی جن تنظیموں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، انہوں نے پاکستان کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی بھی ہے یا نہیں؟۔ کیا کسی عالمی ادارے یا ملک نے ایسے شواہد دیے، آیا وہ قابل قبول ہیں کہ ان تنظیموں نے دہشت گردی کی کسی کارروائی کے لیے سرزمین پاک استعمال کی ہے۔
ہمیں اس پر اپنے عوام کو بھی مطمئن کرنا ہوگا کہ آخرکیوں ادارے اُس وقت حرکت میں آتے ہیں جب کوئی دوسرا ملک، پاکستان پر براہ راست الزام لگاتا ہے۔ عجیب نوعیت کا معاملہ ہے کہ اربوں ڈالر کا نقصان بھی پاکستان برداشت کرے، ہزاروں جانوںکی قربانی بھی دے۔ دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر بھی ہو، لیکن اس کے باوجود پاکستان کا بیانیہ قابل قبول نہیں ہوتا۔ خارجہ و داخلہ پالیسی میں ایسا کون سا سقم ہے جس بنا پر پاکستان کا چہرہ امن پسند نہیں بن پارہا۔ پاکستان کو دنیا میںسفارتی محاذ پر اکیلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قریبی دوست ممالک بھی پالیسی بیان دیتے ہوئے محتاط رہتے ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک کو پاکستان کی اشد ضرورت بھی ہے، لیکن ان کے تجارتی مفادات کی وجہ سے ان کی خارجہ پالیسی بھی حیران کن نظر آتی ہے۔
ایسی کئی کالعدم کی جانے والی تنظیموں کی لمبی فہرست ہے جس میں سب ایک ہی لاٹھی سے ہانکے گئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے ہوں یا بھارت اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے، مقبوضہ کشمیر کی اخلاقی حمایت کرنے والے ہوں یا انسانیت کے نام پر مقبوضہ کشمیر میں ظلم کو روکنے والی تنظیمیں ہوں۔ سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ بھارت یا افغانستان اگر جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کسی بھی سیاسی یا سماجی تنظیم پر الزام عائد کرے گا تو کیا اُن کے جھوٹ کو مان کر قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آجائیں گے؟
پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوںکو ختم کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور پوری دنیا کے سامنے خود کو پیش کیا ہے کہ اگر کسی بھی ملک کو دہشت گردوں کے کسی ٹھکانے کا علم ہے تو بتائے، پاکستانی فورسز خود کارروائی کریں گی۔ لیکن جس طرح مساجد، مدارس کے خلاف کریک ڈائون کیا جاتا ہے، اس سے پاکستان کا اپنا دعویٰ شک کے دائرے میں آجاتا ہے۔ کیا ہم نے اس پر کبھی غور کیا کہ ایک جانب ہمارا محکم دعویٰ کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے نہیں، لیکن دوسری جانب مساجد، مدارس اور فلاحی سماجی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون کرکے گرفتاریاں کرنے سے عالمی برادری میں کیا پیغام جارہا ہے؟ بلاشبہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ اقدام کرنے چاہیں، اپنی سرزمین کو کسی بھی مملکت کے خلاف استعمال کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جتنی سخت کارروائی کرسکتی ہیں ضرور کریں۔ پاکستانی قوم اُن کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، ہر پاکستانی آپریشن ردُالفساد کا سپاہی ہے۔
لیکن کسی دشمن کے کہنے پر کریک ڈائون ہوں گے تو اس پر سوالیہ نشان ضرور اٹھے گا۔ پاکستان کا بیانیہ بھی کمزور ہوگا۔ مسجد، مدارس، فلاحی سماجی تنظیموں کو ٹارگٹ بنانے سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ صرف الزامات پر گرفتاریوں سے مخالف کے بیانیے کو اہمیت ملتی ہے کہ ”یہ سب اس سے پہلے نہیں ہوتا تھا اب دبائو پر ہورہا ہے۔” پاکستان لاکھ کہتا رہے کہ یہ ہمارا پہلے سے منصوبہ تھا لیکن اس کو تسلیم کرانے میں بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستانی ادارے اپنی ساکھ و وقار کو بحال رکھیں اور صرف ملکی مفاد کے خاطر مضبوط شواہدپر ہی اپنا گھر بھی صاف کریں۔ پاکستان کو پہلے ہی وقتی کارروائیوں پر کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ ہمیں ملک عزیز کی سرحدوں کے ساتھ اپنی نظریاتی ساکھ کی بھی حفاظت کرنی ہے، کیونکہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔