تحریر: ریاض احمد مغل میں کون ۔۔۔۔عامل تو کون ۔۔۔۔معمول عامل جو کچھ پوچھوں گا بتلائے گا۔ معمول۔۔۔۔ بتلائوں گا عامل۔۔۔۔ گھوم جا معمول ۔۔۔۔گھوم گیا عامل۔۔۔۔ کیا دیکھ رہا ہے
معمول۔۔۔۔ روتے ہیں چھم چھم نین اجڑ گیا چین میں نے دیکھ لیا تیرا پیار ہائے میں نے دیکھ لیا تیرا پیار عامل۔۔۔۔ بچہ! آج دکھی گانا گا کر تو نے میرا دل جلا کر رکھ دیا ہے ، تو نے میرے پیار کو چیلنج کر دیا ہے حالانکہ میں تمہارے ساتھ بچوں سے بھی بڑھ کر محبت اور اس سے بھی زیادہ پیار کرتا ہوں۔
معمول۔۔۔۔ استاد جی ! کوئی شک نہیں کہ آپ مجھ سے محبت اور پیار کرتے ہیں ، مگر میں تو جہلم کی سیدھی سادی اور بھولی بھالی عوام کی محبت کا اظہار کررہا تھا کہ وہ گزشتہ 30برسوں سے چار ایم پی اے خادم اعلیٰ پنجاب اور دو ایم این اے خادم اعلیٰ پاکستان کی جھولی میں ڈال کر اپنی محبت اور پیار کا اظہار تو کرتے آرہے ہیںاور کربھی رہے ہیں مگر نہ جانے خادم اعلیٰ پنجاب اور خادم اعلیٰ پاکستان کو پورے پنجاب کی بجائے صرف لاہور یوں سے کیوں پیار ہے جو کہ پورے پنجاب کا بجٹ صرف لاہور پر ہی خرچ کرکے اس کو دلہن کی طرح سجا رہے ہیں اور اسے لندن ، پیرس ، نیویارک اور دبئی کی سطح پر لارہے ہیں تا کہ عوام وہاں جانے کی بجائے لاہور ہی آئیں۔
Lahore
عامل۔۔۔۔ بچہ! تو نے سنا نہیں کہ لاہور لاہور اے تے جنے لاہور تکیا نئیں او جمیا نئیں لاہور پنجاب کا دل ہے ، تمام صوبائی دفاتر ، وزارتیں ، سیکرٹریٹ اسی شہر میں ہیں ، سجانے کا مقصد پورے پنجاب سے آنے والے سائلین کو سہولتیں فراہم ہوں ، دوردراز سے آنے والے یہاں آکر اپنے آپ کو خوشحال محسوس کریں اور ان کی تھکاوٹ دور ہوسکے ۔میٹرو بس سروس اور اورنج ٹرین کے مزے اڑا سکیں ، خوب گھومے پھریں اور دل کھول کر خریداری بھی کریں۔ معمول۔۔۔۔استاد جی! آپ تو لاہور کی بڑی تعریفیں کررہے ہیں، یہ سب تعریفیں تو بادشاہوں کے جیسی ہیں ، یہاں بھی غریب عوام بستی ہے ۔ میٹرو بس ، اورنج ٹرین ، پل پلیوں ، سیکرٹریٹ ، وزارتیں ، ایئرپورٹ ، بلند بانگ پلازے اور ہوٹل ریسٹو رنٹس ان کی غربت کو دور نہیں کر سکے ہیں ۔ الٹا مہنگائی ، بے روزگاری نے لوگوں کو بے گھر کرکے داتا دربار ، مینار پاکستان اور شاہی قلعوں جیسے مقامات پر اپنی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں ، انہی مقامات کو اپنی رہائش گاہیں تصور کررہے ہیں ۔
بھوک مٹانے کیلئے داتا دربار جیسی درگاہ پر جا کر لنگر کھاکر اپنے اور خاندان کی کفالت کررہے ہیں ۔آپ تو لاہور کو لندن ،پیرس ، نیویارک اور دبئی جیسے شہروں سے ملانے کی باتیں کررہے ہیں ، وہاں تو کوئی درگاہ ،پبلک مقامات ایسے نہیں جہاں مفت میں کھانا ملے اور راتیں بسر کی جائیں ۔یہ کیسی ترقی ہے ۔اربوں ، کھربوں روپے لاہور شہر میں کہاں اور کس پر خرچ ہورہے ہیں ۔ عوام کا تو اب بھی پچھلے 30/40سال پرانے جیسے حالات ہیں ۔لوگ اب بھی بھوک افلاس کی وجہ سے خود کشیاں کررہے ہیں اور اپنے بچوں کو فروخت کررہے ہیں ۔یہ کیسا انصاف ہے؟ عامل۔۔۔۔بچہ! تو دل دکھانے کی بات نہ کر ۔ عوام اب بھی اپنے خادم اعلیٰ پنجاب اور پاکستان سے خوش ہیں ، یہی وجہ ہے کہ چار ایم پی اے اور دو ایم این اے بھاری اکثریت سے سلیکٹ کرکے انکو تحفے دے رہی ہے ، یہ سب ممبران اسمبلی کیسے خوش حال ہیں تو غریبوں کی بات نہ کر ۔
ان کا تو شروع سے آخر تک اللہ ہی وارث اور نگہبان ہے ۔ حکومت کے اربوں کھربوں پیسوں پر ان کا کوئی حق نہیں، یہ حق تو صرف ایم پی ایز اور ایم این ایز کا ہوتا ہے اور وہی ان کے اصل حقدار ہوتے ہیں ،کیونکہ انہوں نے 5سال بعد یہی روپے عوام پر خرچ کرنے ہوتے ہیں ۔10%گلیوں نالیوں ۔10%سڑکوںاور80%عوام کو اکٹھا کرکے لچھے دار تقریروں اور سہانے خواب دکھانے پر خرچ کر دیتے ہیں ۔ان کے حصے میں اپنے بچوں کی کفالت کیلئے جورقم آتی ہے وہ صرف رکشوں کے ٹول ٹیکس ، سائیکل موٹر سائیکل سٹینڈ ٹیکس اور تھانوں میں لوگوں کو بند کرانے اور پھرچھڑوانے ،ناجائز قبضے کرنے اور پھر چھوڑنے کی مد میں حاصل کئے گئے صرف لاکھوں روپے ماہانہ ہی سے گذر بسر کرکے اپنی کفالت کرتے ہیں ۔
Rice. Sugar
معمول۔۔۔۔استاد جی! جو کچھ آپ بتا رہے ہیں اس طرح تو مجھے ان ممبران اسمبلی پر ترس آرہا ہے کہ اتنی لاکھوں کروڑوں روپے مالیتی گاڑیوں پر سفر کرنے والے روزانہ 5,10اور 20روپے ہی بیچارے اکٹھے کرتے ہیں ، ان کا گذر بسر کیسے ہوتا ہوگا؟ گھر کے اخراجات کیلئے آٹا ، گھی ، چاول ۔ چینی او ر سبزی وغیرہ کیسے لاتے ہوں گے؟عامل۔۔۔۔بچہ! ان کو سمجھنا تیرے بس کی بات نہیں۔ ہر شعبے میں انکے چمچے کرچھے ہوتے ہیں ، مارکیٹ کمیٹی کے ملازمین ہی تاجروں سے آٹا گھی چینی چاول اور منڈیوں سے آلو پیاز ٹماٹر سبزی پھل وغیرہ شیرنی کے طور پرچڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ اسطرح انکی گذر بسر ہوجاتی ہے ، ہاں! بے چارے اپنے گھروں میں کم ہی کھاتے ہیں بلکہ روزانہ شیڈول کے مطابق ہی مختلف دعوتوں کی صورت میں ہی کھا پی لیتے ہیں ، اپنا پیٹ پالنے کیلئے کوئی جنازہ یا ولیمہ نہیں چھوڑتے ۔ یہ سب گر انکو انکے خادم اعلیٰ پنجاب اور خادم اعلیٰ پاکستان نے ہی سکھائے ہیں ۔ رہی بات عوام کی خوشحالی کی تو وہ تو ویسے ہی دما دم مست قلندر۔۔۔۔جھولے لال قلندر کے ماننے والے ہیں۔
معمول۔۔۔۔استاد جی! خادم اعلیٰ پنجاب کو چاہیئے کہ وہ ہماری طرف بھی دیکھیں صرف پیار سے۔ یہاں بھی بسنے والے لوگوں کی شکلیں لاہوریوں سے مشابہت رکھتی ہیں ۔وہاں تو میٹرو بسیں خلائوں میں چند دنوں میں بنا کر ٹریفک کے رش کو ختم کرکے رواں دواں کردی گئی ہے مگر یہاں جہلم میں برسوں سال پرانا مسئلہ نالہ گہان پل کی تعمیر کیلئے گرانٹ تو دے دی گئی ، سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا مگر دوسال گذر جانے کے باوجود ابھی تک وہیں کا وہیں ہے ، مختلف محکموں کے لوگ ہر وقت وہاں کام میں مصروف ہیں ، اپنی مزدوریاں بھی لے رہے ہیں مگر نہ جانے ابھی تک ایک انچ بھی پل تعمیر نہیں ہو سکا ۔لگتا ہے کہ عوام اس پل کو اپنے حسین خوابوں میں ہی تعمیر ہوتا دیکھ کر اس پر سفر کرینگے ، عنقریب دوبارہ اس کی تعمیر کیلئے خادم اعلیٰ پنجاب سے گرانٹ کی اپیل کی جائے گی ، کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ بیچارے سرکاری ملازمین اور افسران اپنے خاندان کی کفالت تین سال تک ہی اس پل کی مد میں کر پائیں گے اورلگتا ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب کے آنے والے 2018ء کے الیکشن کے بعد 5سال مکمل ہوجانے تک پل مکمل کر دیا جائے گا،جس پر حقیقت میں لوگ اپنی کھلی آنکھوں سے سفر کے مزے لوٹ سکیں گے ، فی الحال انہیں حسین خوابوں پر ہی گذارا کرنا پڑے گا۔
عامل۔۔۔۔بچہ! نالہ گہان پل کی تعمیر کی حالت زار ٹھیک بیان کی ہے مگر نالہ گہان سے آگے بھمبر کے مقام پر تعمیر ہونے والا پل مشرف دور میں تو صرف 6ماہ میں ہی بن گیا تھا ،وہ کہیں جادو کی چھڑی سے تو نہیں بنا تھا ۔ وہ کیسے جلدی بن گیا تھا؟ معمول۔۔۔۔ استاد جی! وہ آمریت تھی ، جمہوریت نہیںتھی۔ جمہوریت تو عوام کو صرف بیوقوف بنانے اور رلانے کیلئے ہوتی ہے ،اصل کام تو آمریت میں ہوتے ہیں عوام کو خوشحال رکھنے کیلئے ڈکٹیٹر ڈنڈے کے زور پر کام کرواتے ہیں ۔اربوں روپے کے کام لاکھوں میں اورتمام کام جلدی جلدی ہوجاتے ہیں ۔آمریت میں ممبران اسمبلی تنگدست اور عوام ہمیشہ خوشحال ہوتی ہے۔ ہر کام کی پوچھ گچھ ہوتی ہے ،آڈٹ ہوتا ہے اور کرپشن کرنے والوں کو کوڑے پڑتے ہیں ،مگر جمہوریت میں کام زیادہ تر فائلوں میں کیا جاتا ہے اور باقی رہ جانے والا کام کمیشن کی نظر ہوجاتا ہے ،
یہی وجہ ہے کہ ایک کام ہر دوسال بعد پھر منظور کروایا جاتا ہے ۔ ہفتوں کے کام مہینوں اور مہینوں کے کام سالوں میں ہوتے ہیں ۔ خادم اعلیٰ پنجاب صرف تقریروں میں ہی مائیک اور ڈائس کو گرا کر اپنا غصہ نکالتے ہیں ، وہ اس لئے کہ ان کا بس ممبران اسمبلی پر نہیں چلتا وہ ان کی باتیں نہیں مانتے ۔وہ بے بس ہوتے ہیں کیونکہ 5سال بعد ان سے ہی ووٹ لیکر دوبارہ خادم اعلیٰ جو بننا ہوتا ہے ، یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کا جہوریت میں بلیک میل ہوتا ہے اور جب تک جمہوریت چلتی ہے ایسے ہی چلتا رہتا ہے ،عوام بے چاری بھی اصل اور نقل میں پہچان نہیں کر سکتی۔