امریکہ (جیوڈیسک) ریاست مزوری میں جیوری کی جانب سے نوجوان کے قتل میں پولیس اہلکار کو مجرم قرار نہ دینے کے فیصلے کے بعد ہنگامہ آرائی پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈز کی مزید نفری طلب کر لی گئی ہے۔
منگل کو سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے مقدمے میں جیوری نے گولی چلانے والے پولیس اہلکار پر فردِ جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فیصلے کے بعد فرگوسن کے علاقے میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے اور متعدد عمارتیں نذرِ آتش کر دی گئی ہیں۔ امریکی صدر اور مائیکل براؤن کے اہلِ خِانہ کی جانب سے پرامن رہنے کی اپیل کی تھی۔
مزوری کے گورنر جے نکسن کا کہنا ہے کہ ہنگامہ آرائی پر قابو پانے کے لیے مزید 2200 نیشنل گارڈ کو طلب کر لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ فیصلے سے قبل کسی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 700 نیشنل گارڈ کے اہلکار طلب کیے گئے تھے لیکن ہنگامہ آرائی کے بعد حکام نے اب مزید 2200 اہلکار طلب کیے ہیں۔
پیر کی شام گرینڈ جیوری کا فیصلہ سناتے ہوئے ریاستی وکیل رابرٹ میکلاؤچ کا کہنا تھا کہ جیوری کا کام حقائق کو فسانے سے الگ کرنا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پولیس اہلکار نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھ مائیکل براؤن کے اہلِ خانہ نے اس فیصلے پر ’شدید مایوسی‘ کا اظہار کیا ہے۔
مزوری کے علاقے فرگوسن میں پولیس اہلکار ڈیرن ولسن نے 18 سالہ مائیکل براؤن کو رواں برس 9 اگست کوگولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد علاقے میں فسادات ہوئے تھے۔ دوسری جانب شکاگو میں امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ ہنگامہ آرائی کا کوئی جواز نے بنتا اور جو بھی اس میں ملوث ہے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پولیس اہلکار کے حق میں فیصلے کی خبر عام ہوتے ہی پیر کی شب سینکڑوں مظاہرین فرگوسن میں جمع ہوگئے اور علاقے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں اور مقامی دکانوں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا اور لوٹ مار کے بعد انھیں آگ لگا دی، جبکہ پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھینکی، اور علاقے میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔