اربن ڈیموکریٹک فرنٹ کے بانی چیرمین ناہیدحسین نے کہا ہے کہ کراچی بھتہ خوروں،منشیات فروشوں،ٹارگٹ کلرز انتہا پسندوں قبضہ گروپوں اور مختلف جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کی جنت بن چکا ہے
کراچی:اربن ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF) کے بانی چیرمین ناہید حسین نے کہا ہے کہ کراچی بھتہ خوروں، منشیات فروشوں، ٹارگٹ کلرز انتہا پسندوں قبضہ گروپوں اور مختلف جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کی جنت بن چکا ہے اس شہر میں ہر شخص بڑے آرام سے اپنے ناجائز کاروبار کی بنیاد پر پراپرٹی حاصل کرلیتا ہے اور با عزت بن کر معاشرے میں رہتے ہوئے سب کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے سول سوسائٹی کے پانچ رکنی وفدسے ملاقات میںکیا وفد کی قیا دت معروف وکیل شیر افضل خان کررہے تھے ناہید حسین نے مزید کہا کہ ملک میں ایک طویل عرصے سے مردم شماری نہیں کروائی گئی ہے اس کی وجہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی مفاد پرستی کے علا وہ ان کی خود غرضی بھی شامل ہے
وہ نہیں چاہتے کہ ان کا ووٹ بینک متاثر ہواگر مردم شماری غیر جانبدارا طریقے سے کرائی جائے تو موجودہ وفاقی اور صوبائی حکمران شہروں اور دیہاتوں سے صاف ہوجائیں گے،کیونکہ وہ دیہی اور شہروں سے اپنی طاقت کے بل بوتے پر منتخب ہو کر آتے ہیں ،نئی مردم شماری سے ان کی مونو پلی ختم ہوجائے گی جبکہ نئی مردم شماری نہ کرانے سے سب سے اہم نقصان ملک اور قوم کو پہنچ رہا ہے کیونکہ ملک کے طول و عرض سے کراچی آنے والے جرائم پیشہ اور دہشت گرد افراد خود کی وابستگی یہاں مقیم اپنے رشتہ داروں سے بڑی آسانی سے ظاہر کراتے ہیں اگر مردم شماری ہوئی تو وہ مستقل ایسی حرکت نہیں کرسکے گے
یہی وجہ ہے کہ کراچی مختلف جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کی جنت بن چکا ہے انہوں نے کہا کہ ‘نارا’ اور’ نادرا’ کا محکمہ بھی آج تک اپنی مثبت کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے یعنی معصوم اور حقیقی پاکستانیوں کو اپنے شناختی کارڈ بنوانے اور رینول کروانے کیلئے دھکے کھانے پڑتے ہیں انہیں اپنی شناخت ظاہر کرانے کیلئے ذلت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،مثلاََ ستر سے پچھتر سالہ بزرگ اور خواتین وحضرات سے ان کے والدین کے شناختی کارڈ مانگے جاتے ہیں وہ بھی نئے شناختی کارڈ ،اگر کسی کے پاس پرانا شناختی کارڈ ہے اور ان کے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں تو وہ کیا کریں؟جن کے ماں باپ ١٩٧١ء سے پہلے فوت ہوچکے تو وہ کیا کریں؟ جبکہ جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کی مدد بھاری رقم کے عوض کی جاتی ہے اور ان کے شناختی کارڈ بڑے آرام کے ساتھ بن جاتے ہیں اب وہ لوگ کیا کریں
جن کے شکاختی کارڈ ٢٠٠٥ء میں بنے اس زمانے میں تو بایو میٹرک سسٹم نہیں تھا تو وہ اپنی سم کی رجسٹر یشن کس طرح کروائیں؟ ناہید حسین نے کہا کہ اب پاکستانی قوم معاشرے میں موجود کن کن کالی بھیڑوں کا شکوہ کرے؟ ایک طرف وہ حکمرانوں کی بے حسی اور نالائقی سے تنگ ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ بھی کسی سے کم نہیں،لہذٰا مایوسی میں ڈوبی ہوئی قوم اپنے کن کن حقوق کی پامالی کا تذکرہ کرے اور کس سے روے؟کیونکہ ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے یہاں ایمانداری کا تو فقدان ہے مگر بے ایمانی اور بد نیتی عروج پر ہے ناہید حسین نے آخر میں کہا کہ پاکستان مکمل طور پر انتشار کا شکار ہے
اس کے باوجود اٹھارہ کروڑ عوام کا بھروسہ صرف اور صرف اپنی پاک فوج پر ہے کیونکہ اس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور جرات و ہمت بھی یہ مخلص بھی ہے اور محب وطن بھی حکومت کی کمزوری اور سیاستدانوں کی سازشوں کا حال یہ ہے کہ وہ پاک فوج کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلوانا چاہتے ہیں تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے،انہوں نے کہا کہ جب ملکی مفادات اور قوم کو تحفظ فراہم کرنا فوج کی ہی ذمہ داری ہے توپھر اقتدار بھی انہی کو دیا جائے تاکہ ملک کے خزانوں پر سیاستدان ڈاکے نہ ڈال سکیں۔