کراچی (خصوصی رپورٹ)اربن ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF) کے بانی چیرمین ناہید حسین نے کہاہے کہ ملک بدل رہا ہے پڑھا لکھا طبقہ جاگ چکا ہے وہ وقت دور نہیں جب پروٹوکول کی گاڑیاں کسی وزیر کے ساتھ نہیں ہونگی بلکہ عوام VIPہونگے اور خدمت کا جذبہ لیکر سیاسی میدان میں اترنے والے ہی کامیاب ہونگے پرانا نظام آخری سانسیں لے رہا ہے اور اسی لیئے یہ نظام اپنی بقا کیلئے زور بھی لگا رہا ہے کیونکہ یہ نظام فالج زدہ ہوچکا ہے گو نواز گو کا نعرہ دراصل گو نظام گو کا نعرہ ہے جو ملتان میں ہوا سب نے دیکھا تحریک ختم نہیں ہوئی سات جانیں قربان ہوگئیں جاںبحق افراد کے لواحقین پھر بھی عمران خان کے ہاتھ چھومتے رہیں امدادی چیک شوکت خانم کو گفٹ کردیئے
یہ چیزیں بھی عقل کے اندھوں کو نظر نہیں آرہی جب کے نواز شریف سیلاب متاثرین کو چھکے چوکوں کی باتیں ایک محفوظ فاصلے سے کھڑے ہوکر سناتے ہیں کہ کہیں کوئی نعرہ نہ لگ جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے عہدداران و کارکنان کے ایک ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا ہمیشہ حکومتیں اپنی نااہلی اور مفاد پرستی سے ختم ہوجاتی ہیں کیونکہ 67 برسوںسے اپنے حقوق سے محروم قوم آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی صورت میں اپنے حقوق کی بحالی چاہتی ہے جنہیں سلب کیا جاتا رہا ان پر جمہوریت کے نام پر نازل ہونے والے حکمرانوں نے غلامی کی زنجیروں میں ایسا جھکڑلیا ہے
وہ نجات حاصل کرنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہے اسی لئے آج قوم ماضی کے بزرگ سیاست دانوں سے نجات چاہتی ہے ۔ اس ہی لیئے قوم ان لوگوں سے تنگ آکر سڑکوں پر آگئی ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہے کے عوام چارج ہے اور انہیں حکمرانوں کی ہٹ دھرمی بلکل پسند نہیں آرہی اس ہی لیئے عوام پوچھتے ہیں کہ یہ کونسی جمہوریت ہے جس میں لاکھوں کروڑوں شہریوں کو احتجاج پر مجبور کردیا ؟ جمہوریت ایک ایک فرد کے حقوق کا تحفظ کرنے کا نام ہے جمہوریت میں غریب اور امیر کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ کونسی جمہوریت ہے جو عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی ؟یہ کیسی جمہوریت ہے جو سمجھ رہی ہے کہ لوگ اپنے گھروں کا سکون چھوڑ کر سڑکوں پر دھرنے خوشی خوشی دیئے بھیٹے ہیں ؟ یہ کونسا آئین ہے جو غریب کو کیا ایک صوبہ کے حکمران جماعت جسے ملک بھر سے ووٹ ملیں جس کی نمائیندگی چاروں صوبوں میں موجود ہے
یہ آئین اس کا تحفظات دور نہیں کرسکتا ؟ یہ کونسا آئین ہے جو چار حلقوں میں دھاندلی کی شکایت دور نہیں کرسکا اور پورے ملک کا سکون برباد کردیا گیا حکمران صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اپنی جماعت کو ہر صور ت بچانے کی کوشش کرینگے چاہیں عوام سڑکوں پر دھرنے دیں یا قبروں میں اتر جائیںاور اب لوگ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ بقول حکومت جب دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر چار حلقوں کی تصدیق میں کیا قباحت تھی۔ ناہید حسین نے آخر میں کہا آخر کار یہ سیسٹم نوجوانوں کو ہی ہینڈ اور ہونا ہے
لیکن خطرہ ہے کہ نوجوان سیاست دانوں کی قبروں پر کھوڑے برسا ں کر انصاف کے تقاضے پورے کرتے نظر آئینگے جس طرح ملتان میں جاوید ہاشمی کے ساتھ ہوا اور نعرہ لگا تیرا مک گیا شو ، گو داغی گواور اب حکمران بھی گو نواز گو کی حقیقت کو سمجھیں داغی جیسا حشر کرواکے رسوا ہوکر جانا فخر کی نہیں شرم کی بات ہوگی۔ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ملک پر قوم کی فلاح اور بقا کیلئے اپنی کرسی کی قربانی دی جائیں ورنہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔