کراچی (جیوڈیسک) کراچی میں نگلیریا، ڈنگی، کانگو اور پولیو وائرس حملہ آور ہوگئے لیکن حکومت سندھ کی جانب سے عوام کی جان بچانے کیلیے معمولی نوعیت کے اقدامات بھی نہیں کیے جاسکے۔
کراچی کا ایک اور شہری نگلیریا کا شکار ہوکر ہلاک ہوگیا، رواں سال کے دوران کراچی میں نگلیریا سے 13 ، کانگو وائرس سے 2 افرادجاں بحق جبکہ 13 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوئے، تفصیلات کے مطابق کے ڈی اے اسکیم کا رہائشی داؤد اقبال نگلیریا کے مرض میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہوگیا۔
نگلیریا کا مرض پانی میں نشوونما پانے والے جرثومے سے لاحق ہوتا ہے اس مرض کے خاتمے کیلیے پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن کراچی میں 13 اموات ہونے کے باوجود پانی میں کلورین (سوڈیم ہائپو کلورائڈ) کی مطلوبہ مقدار شامل نہیں کی جارہی۔
ماہرین کے مطابق کراچی میں اب بھی کئی افراد نگلیریا کی علامات میں مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، متوفی داؤد اقبال کی نگلیریا کی تصدیق کے بعد محکمہ صحت کی نگلیریا کمیٹی کے ارکان نے جمعہ کواس کے گھر کا دورہ کیا اور مریض کے گھر اور اطراف سے پانی کے نمونے حاصل کیے۔
کیمیائی تجزیے کے دوران انکشاف ہوا کہ مریض کے گھراور گھر کے قریب واقع مسجد کے پانی میں بھی کلورین شامل نہیں ہے جس پر نگلیریا کمیٹی کے ارکان نے واٹربورڈ حکام کو مطلع کر دیا ہے جبکہ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل کرنے کیلیے ماہانہ ایک کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
لیکن متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی میں نگلیریا کے مرض میں مبتلا افراد تواتر سے رپورٹ ہورہے ہیں، اس سے قبل بھی نگلیریا کی مشترکہ کمیٹی نے پانی میں کلورین کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ کراچی کے بیشتر علاقوں میں فراہم کیے جانیوالے پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدارشامل نہیں لیکن حکام نے رپورٹ پر کوئی توجہ نہیں دی۔