وحشت سی برسنے لگی دیوار سے در سے صحرا کی حدیں ایسے ملی ہیں مرِے گھر سے یہ رسم وراثت میں ملی ہے مجھے سر شار میں جھک کے نہیں ملتا ہوں اربابِ اثر سے
وطن عزیز کے ممتاز اور نامور شاعر اکرام الحق سرشار کا اردو غزلیات پر مشتمل دوسرا شعری مجموعہ ”صبح ہونے دو ” حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ چند روز قبل موصول ہوا تو روح و قلب کو بے انتہا طمانیت و سرشاری میسر آئی کہ” شہرِ غزل ”کی آبیاری اور رکھوالی کرنے والے کچھ دیوانے ”جہان سخن” میں اب بھی باقی ہیں۔ اکرام الحق سرشار کا پہلا شعری مجموعہ ”غنچہ سحر” 1969ء کو ان کے عہد شباب ہی میں منظر عام پر آیا کہ گویا ”جب آتش جواں تھا ”۔ وہ بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی غزل وجد وترنم کی چاشنی سے بھر پور، نزاکت و لطافت سے معمور و مزین ہونے کے ساتھ ،ساتھ فنی و فکری حوالوں سے بھی انتہائی معتبر، پر اثر اور دل آویز ہے ۔ شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کانوں میں بلبل نغمہ سرا ہے یا کسی باغ میں چہچہاتی کوئل کی سریلی آواز سماعتوں میں اتر کر رس گھول رہی ہے۔ جہاں ان کے اشعار میں محبت اور حساسیت کا رنگ نمایاں انداز میں ملتا ہے وہاں ان کے سخن میں فکری مزاحمت کو بھی مرکزیت حاصل ہے۔ وہ شعوری فکر کو اپنے منفرد اور مخصوص لب و لہجے کے ساتھ شعری پیرائے میں ڈھال کر ایسے قرینے سے ایک پیغام کی صورت میں قاری تک پہنچاتے ہیں کہ جس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
دشتِ شب پر خون چھڑکا جائے گا تب کہیں جا کر اندھیرا جائے گا صبح ہونے دو کِرن کے ساز پر نغمہ ء سرشار چھیڑا جائے گا
اکرام الحق سرشار کے قلمی نام سے اردو زبان و ادب کی دنیا میں شہرتیں سمیٹنے والے بلند پایہ شاعر کا اصل نام اکرام الحق بیگ ہے۔ آپ 11ستمبر 1951ء کو ضلع منٹگمری (حال ضلع ساہیوال) کے علاقے چیچا وطنی میں مرزا محمد شفیع کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایم سی ہائی سکول چیچا وطنی سے حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں جب وہ گورنمنٹ ڈگری کالج ضلع منٹگمری میں ایف اے کے طالب علم تھے تو ادبی دنیا میں قدم رکھا ۔ یہ سال 1968ء کی بات ہے ۔ اسی برس ہی ان کی پہلی غزل ”آفتابِ حکمت”میں اشاعت پذیر ہوئی تو ان کے حوصلے بلند ہو گئے۔ بعد ازاں ان کا کلام فیصل آباد سے نکلنے والے ماہنامہ ”پرچم ”میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگا۔ 1969ء میں انہوں نے ”بزمِ فروغِ ادب چیچاوطنی ”کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے انھوں نے بہت ہی یادگار ادبی تقریبوں اور تاریخی مشاعروں کا انعقاد یقینی بنایا۔ملک بھر سے نامی گرامی شعراء ادباء چیچاوطنی کے ان مشاعروں اور تقریبوں میں شرکت کرتے اور ادبی ماحول کو گرماتے رہے ہیں ۔
اکرام الحق سرشار کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ فروغِ ادب کے لیے اتنے ہی سرگرم ِ عمل رہتے ہیں جتنا کہ ایامِ جوانی میں متحرک ہوا کرتے تھے۔ ان کے اندر کا انقلابی شاعر انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ انھیں معاصر حالات کا بخوبی ادراک ہے۔اجتماعی سطح پر پائی جانے والی معاشرتی ناہمواریوں، سماجی ناانصافیوں اور حالات کی چیرہ دستیوں پر ان کا دل کڑھتا ہے تو وہ اپنے احساسات و جذبات کو پوری سچائی اور بے باکی کے ساتھ شعری اظہاریہ میں بیان کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں کہے گئے ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
صحرا سی خموشی میں صدا ڈھونڈ رہے ہیں اِک حبسِ مسلسل میں ہوا ڈھونڈ رہے ہیں کانٹوں سے توقع ہے بنیں زخم کا مرہم ہم آک کے پتوں میں حنا ڈھونڈ رہے ہیں اس شہرِ ستم گر میںعجب لوگ ہیں ہم بھی عریانی کے عالم میں قبا ڈھونڈ رہے ہیں
ان کے فن کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ الفاظ کا چنائو نہایت سنجیدگی، خوب صورتی اور ایک خاص ترتیب و ترکیب کے ساتھ کرتے ہیں۔ جس سے شعر کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔
مہ و شو ! دامنِ کُہسار کہاں تک دیکھوں گل بنو! وادیِ پُر خار کہاں تک دیکھوں تیری زلفوں کی گھٹائوں سے بھی ساغر برسیں ساقیا! ابرِ گہر بار کہاں تک دیکھوں حسنِ یوسف کاکبھی جلوہ نظر آجائے ہم دمو! مصر کابازار کہاں تک دیکھوں
اکرام الحق سرشار کی خوبی صرف ایک اچھے شاعر ہونے تک محدود نہیں۔ وہ عملی طور پر تحریکی شخصیت ہیں۔ ان کے شخصیت کے بے شمار مثبت پہلو ہیں جن کے باعث انھیں ملک بھر کے ادبی حلقوں میں نہ صرف بے حد پذیرائی اور ایک خاص مقام حاصل ہے بل کہ علم و ادب کی ترویج کے لیے ان کی شبانہ روز کاوشوں اور بے نظیر خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جو مِری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
اس شہرہ آفاق شعر کے خالق بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر سلیم کوثر ”صبح ہونے دو ”کے سرورق پر رقم طراز ہیں ”اکرام الحق سرشار محبت کی خوشبو سے بنا ہوا ، درد مند دل رکھنے والا پر بہار آدمی ہے، محبت ،وفاداری کا بانکپن لیے ، اس کی شخصیت ، اس کے کردار اور اس کے وجود سے روشنی کی طرح پھوٹتی ہے۔ وہ ایک سچا اور محب وطن پاکستانی ہے۔ عشق رسولۖ اس کا سرمایہء حیات ہے۔ اس نے جیسی زندگی گزاری ، اس کے نشیب و فراز سے گزرا، اس کی شاعری اس کا آئینہ ہے ،آپ کو اپنا اور اپنے زمانے کے عکس دکھائی دیں گے ”۔
بلاشبہ ”شہر”باکردار ، معتبر اور معروف لوگوں سے پہچانے جاتے ہیں کہ ان کا چہرہ یہی شخصیات ہوا کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ چیچا وطنی کی علمی اور ادبی پہچان اس زمانے میں اکرام الحق سرشار ہیں تو یہ بے جا ہر گز نہ ہوگا ۔ ان کے ان خوب صورت نعتیہ اشعار کے ساتھ اس مختصر مضمون کا اختتام کیا جاتا ہے
کسی کا ایسا مقدر نہ بخت ایسا ہے مرے نبیۖ کی نبوتۖ کا تخت ایسا ہے نظر میں روضہِ اطہر زباں پہ اسمِ رسولۖ مسافرت میں مِرے پاس رخت ایسا ہے ملائکہ بھی یہاں سجدہ ریز ہیں سرشار یہ آستانہ ہے ایسا یہ تخت ایسا ہے