دکھ، خوداحتسابی اور بلآخر کچھ کرنے کی تڑپ جیسی کیفیات سے گزر ہوتا ہے جب معاشرے میں رومن اردو اور انگلش کی جانب مرعوبیت سے بڑھتا رحجان نظر آتا ہے۔ برطانوی راج اور ملک و ملت کے غداروں نے ہم سے بہت کچھ قیمتی چھینا ہے اور بدلے میں احساس کمتری کا ہار ہمارے گلے میں پہنا کر ہمیں دیوار کے ساتھ لگنے یا یوں کہیے کہ ہمیں زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اردو زبان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
1999ءکے اعداد وشمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی بولنے والوں کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
اردو کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے۔ ایس۔ آئی۔ ایل نڑادیہ کے 1999ءکی شماریات کے مطابق اردو اور ہندی دنیا میں پانچویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے۔ لینگویج ٹوڈے میں جارج ویبر کے مقالے : ”دنیا کی دس بڑی زبانیں“ میں چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد اردو اور ہندی دنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اسے دنیا کی کل آبادی کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، پاکستانیوں کی 7.57%آبادی کی مادری زبان اردو ہے لیکن تعلیمی سطح پر، ذرائع ابلاغ میں اور تجارتی لین دین میں اردو کا ہی استعمال کیا جاتا ہے اس طرح اردو بولنے والوں اور سمجھنے والوں کی اکثریت ہے۔ یہ اپنے آپ میں ملک کے ثقافتی اور سماجی ورثے کے ایک وسیع ذخیرے کی حامل ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پیغام نے فرمایا تھا۔ ”میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے، پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔ (21 مارچ 1948 ڈھاکہ)
سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان نہ صرف ہماری قومی یکجہتی، ہماری عظیم تاریخ ہمارے علمی ادبی ثقافتی اور دینی ورثے کی علمبردار ہے بلکہ کسی بھی عالمی زبان کے لیے جو معیارات رکھے گئے ہیں ان پر سو فی صد پورا اترتی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم مرعوبیت کی نفسیات سے باہر آئیں اور اپنی جڑوں ہی سے نمو پائیں کہ تناور درخت کی مانند دھرتی پر کھڑے رہ سکیں کیونکہ کائنات نے آج تک جڑوں سے رشتہ تو ڑ دینے والے پودوں کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھا۔
ہمارے حصے کی باغبانی یہ ہے کہ ہم اردو سیکھیں سکھائیں، لکھیں پڑھائیں، پڑھیں سنائیں۔ اردو ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ اس ورثے پر نسل نو کا حق ہے۔ اس خزانے کو پوری امانت داری سے اس کے ورثا کو سونپ جائیں۔