20 ستمبر 2020 اتوار کا دن تھا۔ اسلام آباد کے سیاسی حلقوں اور صحافتی بیٹھکوں میں آل پارٹیز کانفرنس کو لے کر بحث مباحثے زبان ِزدعام تھے لیکن بحیثت صحافی میں اس تمام گہما گہمی سے کَنی کُتراتے ہوئے ایک الگ ہی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔اس منزل پر ساتھ دینے والے دوست ایک دن قبل ہی آگاہ کر دیئے گئے تھے۔
ہمارا یہ سفر صبح سات بجے شروع ہوا، میری گاڑی کی منزل ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی کے گاؤں ” گُل میرہ (لوندخوڑ) ”تھی جو کہ نوشہرہ سے چَھپن کلومیڑ کے فاصلے پرتھا۔ جی ٹی روڑ پر سفر کرتے ہوئے حاجی شاہ کے مقام سے شاعر و صحافی اقبال زرقاش اور بلاگرغازی سردار ایاز خالد میرے ساتھ ہمسفر بنے۔نوشہر ہ سے مردان کے راستے شاہراہِ سوات کے متوازی”نوشہرہ تا دَرگئی ”ریلوے کی خستہ حال پٹڑی دکھائی دی جو حوادثِ زمانہ کے تھپیڑوں کے سبب نہ صرف تباہ و بردباد ہو چکی ہے بلکہ قبضہ مافیا کے مکمل قبضے میں بھی آ چکی ہے۔ جابجاریلوے لائن کے درمیان موجود ہوٹلوں کی چارپائیاں اور ڈاکٹروں کے اشتہاری بورڈ حکومت وقت اور خصوصاً وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا منہ چڑا رہے تھے۔انہی چارپائیوں پر بیٹھ کر راقم اور اسکے دوستوں نے چائے بھی پی اور چند تصاویر بھی بنائیں۔ میرے بزرگ دوست فرمانے لگے کہ ایک زمانہ تھا اس ریلوے ٹریک پر سوات اور گردو نواع کے عوام کو ایک اعلیٰ پائے کی سفری سہولت ٹرین کی صورت میسر تھی لیکن افسوس! بلکہ یہاں درگئی سے مال گاڑی، آڑتیان جو کہ اب ہاتھیان ہوچکا سٹیشن اور شہرِگڑھ جو آج کل شیرگڑھ کہلاتا ہے سے تمام ملک کو گڑ مہیا کی جاتا رہا۔اب اس کی تباہی میں تو سب نے اپنا حصہ ڈالا ہوا ہے کیونکہ پارلیمانی وزیر مملکت علی محمد خان کا گھر اور ساری جائیداد اِسی ٹریک پر موجود ہے جس کا ہر بار گھر آکر مشاہدہ کرتا ہے مگر اس کی بحالی کے لیے ابھی تک کچھ اقدام تک نہیں اٹھائے گئے جس سے اس علاقے کے معیاری گنے کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
بات گُل میرہ گاؤں کی ہو رہی تھی۔ ہم مردان سے مالاکنڈ روڈ پر آئے، پھر گوجر گڑھی، سری بہلول، جھنڈے کے علاقے پیچھے دوڑتے محسوس ہوئے۔ اگلے لمحے ’تخت بھائی‘ کا بورڈ دکھائی دیا جس کے بائیں جانب خستہ حال ریلوے سٹیشن تھا جس پر چپلی کباب کے بورڈز نظر آنے شروع ہوئے۔ بازار سے مزید آگے بڑھے توچند مزید علاقوں کے بعد شیرگڑھ بازار کے عین وسط میں دائیں جانب ایک راستہ مڑتا دکھائی دیا،ہم اسی راستے پرسے شیرگڑھ ہوتے ہوئے ہاتھیان اور آخر کار گل میرہ میں سڑک کنارے درویشِ سخن، بابائے مردان کے غریب خانے پہنچ گئے جہاں اُردو سے اپنی جان ومال سے بھی زیادہ محبت کرنے والی شخصیت ہماری منتظر تھی۔قارئین مردان میں بابائے اُردو مردان کا خطاب پانے والی شخصیت کانام ِنامی گوہر رحمن گُہرمردانوی ہے۔گوہر رحمن گہر پیغمبری پیشے سے منسلک ہیں۔ہفت زباں شاعر ہیں اور شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔زیادہ تر شاعری اُردو، پشتواور فارسی میں کرتے ہیں۔ بیک وقت استاد، شاعر اور ادیب ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔حمد و نعت کی کتاب” سکونِ قلب” اور غزلیات کی کتاب ”لالی(موتیوں کی لڑی” وجہ شہر ت قرار پائی ہیں جبکہ ”دُربار”(شعری مجموعہ) ”شذراتِ گوہر”،(انشائیہ جات) ”دُریتیم” (شعری مجموعہ) اور ”باچھیں وا ” (طنزومزاح) اشاعت کی منتظر ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت ملک بھر اور بیرون ملک یکساں مقبول استاد شاعر ہیں۔ روزانہ کئی کئی غزلیں قرطاس کتاب چہرہ یعنی فیس بک پر منور ہو تی ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میں انکے شاگرد ملک و بیرون ملک سے اِن سے علم عروض کی گھتیاں سلجھانے کے لیے رابطے میں رہتے ہیں۔حلقہ احباب بھی کافی وسیع ہے۔
ہم جب آستانہ ِ گہر پہنچے تو ہمارے استقبال کے لیے شعری مجموعے ”شب ریز”کے مصنف اورممتاز شاعرعزیز عادل، بہترین لہجے کے شاعر انواراحمد شام اور بابائے مردان کے شاگرد شاعربی ایس اُردو کے طالب علم کامران دانش موجود تھے۔ سب سے پہلے گوہر رحمن گہر مردانوی سے گذشتہ دنوں یکے بعد دیگرے وفات پانے والے بھائی او روالدہ کی وفات پر اظہار افسو س اور مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ بعد ازاں عمدہ ضیافت کے بعد گوہر رحمن گہر کا انٹرویو کیا جسکے دوران انکشاف ہو ا کہ وہ مردان جیسے پسماندہ اور پشتون علاقے میں اُردوزبان کی ترویج و ترقی کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ ان کا اپنے شاگردوں کو درس ہے کہ” تاریخ گواہ ہے کہ ہجوم ہمیشہ ایک زبان سے ہی قوم بنا کرتا ہے ”۔ گوہر رحمن گہر مردانوی نے انکشاف کیا کہ وہ علامہ اقبال کو اپنا مرشد مانتے ہیں اور روحانی طور پر انہی سے رہنمائی لیتے ہیں۔گوہر رحمن گہرمردانوی کی شاعری کا موضوع معاشرتی و ا صلاحی ہے۔
دوپہر کے طعام کے بعد اُونچی نیچی ڈھلوانوں کے درمیان بہتی گل میرہ کی صاف و شفاف ندی کنارے مشاعرے کا بندوبست کیا گیا جہاں مقامی و مہمان شعراء نے اپنے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا۔مقامی شعراء پاکستان اکامی ادیبات سمیت تمام حکومتی اداروں خصوصاً سینڑل پرنٹ و الیکڑانک میڈیا سے شکوہ کناں بھی دیکھائی دئیے کہ بڑے شہروں کے شعراء ہی منظور نظر ہیں جبکہ مضافاتی شعراء جو بہت اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق کر رہے ہیں،دیوار سے لگائے جارہے ہیں۔ عمدہ بیٹھک اور خوشگوار ماحول میں اس علاقے سے حسین یادیں لئے جب واپس لوٹ رہے تھے تو تہذیب کی آغوش میں پڑے اس علاقے میں دنیا کی قدیم تہذیب گندھار کے تخت بھائی اور جمال گڑھی کے بدھ مت کے آثار دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔حکومت اور وابستان اردو سے پرزور اپیل ہے کہ ایسے گدڑی کے لعلوں کو ساغر صدیقی ہونے سے بچائیں اور ان احباب کی ادبی کاوشوں کی حوصلہ افزائی کریں۔مرام۔محفل رفقائے اردو مردان کی تنظیم ان احباب نے دو ہزار سترہ میں بنائی جس کے صدر بابائے مردان گوہررحمٰن گہر مردانوی ہیں۔اگر اس تنظیم کو سرکاری سطح پر پذیرائی ملی توگندھارا تہذیب کے باسی گمنامی سے بچ جائیں گے اور مزید گوہر (ہیرے) پیدا ہوں گے۔