تحریر : محمد پرویز بونیری اردو ادب سے جن لوگوں کا تھوڑا بہت واسطہ رہا ہے، وہ کسی نہ کسی صورت میں دبستان کی بحث میں شریک رہے ہیں۔دبستان دلی اور دبستان لکھنو ایم اے اردو کے نصاب کا لازمی حصہ ہیں۔دبستان کا لفظ ادبی اصطلاح بن چکاہے اوراس سے مراد مدرسہ فکر یا مکتب فکر ہے۔ انگریزی میں اسکے لئےSchool of thoughtsاستعمال ہوتا ہے۔ کچھ لو گ کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ادبستان ہے یعنی اردوادب کامکتب فکر ،بہرحال مخصوص شعری نظریات اوررجحانات دبستان کوجنم دیتے ہیں یعنی جب کسی مخصوص دوراورخطے کے ادیب اورشاعراُسی دورکے سیاسی حالات، نظریات ،جحانات، طرزبودوباش اورسماجی اقدار سے شعوری طورپر متاثرہوکر ادب تخلیق کرتے ہیں ، تودبستان وجودمیں آتاہے۔اسی بنیاد پراردو شاعری کومتعدددبستانوں میں تقسیم کرکے ہردبستان کے مشترک اورمنفردعوامل اورعناصر کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔دبستان کی بحث دہلی اورلکھنوکے شعروادب کاموازنہ کرنے سے شروع ہوتی ہے، اسی بنیادپر دبستان دہلی اورلکھنوکی مستقل حیثیت ہے اوراس حد تک دبستان کے بارے میں اردوادب سے تھوڑابہت شغف رکھنے والوں کے ذہن میں بھی دبستان کاایک خاکہ موجودہوتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لفظوں کاخوبصورت پیراہن پہناکر اپنی اس سوچ کو بیان کرنے اورصفحہ قرطاس پرمنتقل کرنے کاملکہ بہت کم لوگوں کوحاصل ہوتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہماری کلاسیکی شاعری کابیشترسرمایہ دبستان دہلی اوردبستان لکھنوکی مرہون منت ہے، تاہم یہ ہماری تمام شاعری کااحاطہ نہیں کرتے۔اردوشاعری کادامن چودھویں صدی عیسویں سے بیسویں تک پھیلاہواہے اوررفتہ رفتہ اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ اکسویں صدی میں اپناسفرجاری رکھی ہوئی ہے۔یہاں دبستان دہلی اورلکھنوسے قطع نظردبستان کی بحث کی جاتی ہے ، جن میں اردوشاعری کے مختلف مراکزشامل ہیں جہاں شعروادب کی محفلیں آبادہوئیں ،ان میں لاہور، کراچی، خیبرپختوانخواہ،آگرہ، رام پور، عظیم آباد،پٹنہ،مرشدآبادحیدرآباد، بھوپال وغیرہ قابل ذکرہیں۔ان میں بعض شہراُس وقت بھی علمی مرکزتھے جب دہلی اورلکھنوپرشباب تھا اوربعض شہروں کی رونق اس وقت بڑھی جب یہ دونوں دبستان انقلاب زمانہ کی زدمیں آئے اوروہاں کے شعراء نے دوسری جگہوں کا رُخ کیا۔
دکن کے ادب پر ایک عرصہ تک پردہ پڑارہااوراس وجہ سے ولی دکنی کواردوشاعری کاباواآدم اورپہلاشاعرتسلیم کیاجاتاتھا ، یہاں تک کہ بعض محققین نے ولی دکنی کااردوکاپہلاصاحب دیوان شاعرکہاہے لیکن اب تحقیق نے بہت سے پردے ہٹادئے اوربڑی حد تک دکنی ادب کی تاریخ مرتب ہوچکی ہے۔اس سلسلے میں مولوی عبدالحق ، ڈاکٹرمحی الدین زورقادری، ڈاکٹرنصیرالدین ہاشمی اورجناب سخاوت مرزا جیسے لوگوں نے بڑی تحقیق کی اوراردوکے اس اولین دبستان کے بارے میں متعددتحقیقی کتابیں، رسالے اورمضامین لکھے جن کی بدولت دکنی ادب کے بہت سے تاریک گوشے روشن ہوچکے ہیں۔
دبستان کی بحث رام پورے کے ذکرکے بغیرادھوری ہے۔اس دبستان میں مہاجرین شعرا ء کی خاصی تعدادی جمع ہوئی تھی جن میں داغ،امیراور جلال وغیرہ قابل ذکرہیں۔رام پورشعراء کے لئے گوشہ عافیت ثابت ہوا،جسکی بنیادی وجہ وہاں کے نواب یوسف علی خان ہے جوخودبھی شاعرتھے اورشعراء کے قدردان بھی تھے۔مولاناشوکت علی اورمولاناجوہرعلی نے بھی اسی ماحول میں پرورش پائی تھی۔داغ اورامیرمینائی بھی اسی دبستان کاحصہ رہے ہیں۔رام پورکے بعدحیدرآبادکے دبستان پربہارآئی اوروہاں کے والئی ریاست میرمحبوب علی خان کے زیرسایہ علم وادب کی ایک نئی دنیا آبادہوگئی۔اسی دبستان کے شاعروں میں داغ، امیرمینائی اورجلیل مانک پوری کے نام خاص طورپرقابل ذکرہیں۔
اردوزبان اورشاعری کی یہ نمایاں خصوصیت ہے کہ وہ مقام کی پابندنہیں رہی بلکہ ہردورمیں برصغیرکے تقریباً ہرعلاقے میں کسی نہ کسی شکل میںنمودارہوئی ۔لسانیات کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اردوشاعری کے قدیم ترین نمونوں اورٹھکانوں کاسراغ لگایاجاچکاہے۔ مثلاًپیرحسام الدین راشدی صاحب نے اردوکی سندھی ملتانی اصل تلاش کی ہے اورقدیم دکنی ادب یعنی قطب شاہی دورمیں سندھ کے ایک مشہوراردوشاعرمیرمحمدفاضل کاذکرکیاہے۔یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ دوسرے کئی شعراکے علاوہ سرزمین سندھ کے مشہورصوفی شاعر سچل سرمست نے بھی اردوزبان میں شاعری کرکے اسکی آبروبڑھائی۔
اسی طرح خیبرپختوانخواہ جس کاپرانانام صوبہ سرحدہے، کے بعض محققین نے قلی قطب شاہ کے عہدسے بھی پہلے اس خطے میں اردو کاسراغ لگایاہے اوررحمان بابا اورخوشحال خان خٹک کے کلام میں اردوکے اثرات دریافت کئے ہیں۔اسکے علاوہ قاسم علی خان آفریدی کاقلمی دیوان بھی دستیاب ہو چکا ہے، جس میں فارسی ،اردواورپشتوغزلیں موجودہیں اوریہ دیوان 1820ء میں لکھا گیا ہے۔بنگال میں اردوکی نشونمامسلمان حکمرانوں کے زمانے سے شروع ہوئی تھی۔
بعد میں کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج کے قیام سے تصنیف وتالیف کاباضابطہ سلسلہ شروع ہوا۔پھرلکھنوکے معزول حکمران نواب واجد علی شاہ نے مٹیابرج میں اقامت اختیارکی تووہاں اردوشاعری کے ذوق کو فروغ ملا۔انسویں صدی میں ڈھاکہ کے اردوشعراء عبدالغفورنساخ ،جوغالب کے دوست تھے اوراحسن علی شاہین کے نام شامل ہیں۔
بہارکاعلاقہ اورخاص طورپر عظیم آباداردوزبان اورشاعری کااہم مرکزرہاہے۔پٹنہ کے رئیس قاضی رضاحسین اہل علم کے قدردان تھے اوران کے دم قدم سے ادبی محفلیں آبادرہیں۔اس طرح شادعظیم آباد، جن کوبیسویں صدی کامیرکہاجاتاہے اورراسخ عظیم آبادی کے نام بھی قابل ذکرہیں۔
پنجاب کاعلاقہ ہمیشہ سے اردوشعروادب کامرکزبلکہ سرچشمہ رہاہے۔یہاں اردوشاعری کی داستان اتنی ہی پرانی ہے جتنی اردوزبان کی کہانی۔لاہورشہرزمانہ قدیم سے مسلمانوں کاعلمی اورتہذیبی مرکزرہاہے اورمختلف ادوارمیں سرحدپارسے آنے والے صوفیوں ، عالموں اورشاعروں کے قافلے اسی راہ سے گزرے۔1857کے غدرکے بعدشاعروں نے پناہ گاہیں تلاش کرناشروع کیاتولاہور ایک گھنا درخت تھا، جس کے سائے میں اہل علم کوسکون میسرآسکتاتھا۔مولاناحالی اورمحمدحسین آزادجیسی شخصیات نے ہجرت کرکے پنجاب کی کھلی ہوامیں سکونت اختیارکی اوروہیں شاعری کاپرچم بلندکردیا۔انجمن پنجاب سے لیکرحلقہ ارباب ذوق تک کازمانہ اردونظم کاعہد زریں ہے۔دبستان لاہورکے شعراء میں اقبال ،حفیظ جالندھری اوراحسان دانش کے نام سرفہرست ہیں۔
لاہورکے ساتھ ساتھ کراچی بھی ایک دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔لاہوراورکراچی اردوادب کے نئے مراکزہیں ۔کراچی کی علمی اورادبی حیثیت قیام پاکستان کے بعدہی قائم ہوئی ہے۔کئی دوسرے شہروں میں بھی متعددہونہارشعراء نمودارہوئے ہیں لیکن کراچی میں پرانے اورنئے شاعروں کی کثرت ہے اوران میں بعض عہدآفرین شخصیات بھی ہیں۔