تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری آج 18 جنوری اردو کے نامور افسانہ نگار ” سعادت حسن منٹو ” کا یومِ وفات ہے۔پاکستان کے نامود افسانہ نگاد جس نے اردو ارب میں ایک نیا انداز اپنا کر بلند مقام پایا۔ اردو ادب کو نکھار نے میں اھم کردار ادا کیا۔
منٹو 11 مئی 1912 کو سمرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھےانہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی پھر کچھ عرصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزارا مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔
ابتداءمیں انہوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے بعض نہایت کامیاب ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہو گئے جہاں متعدد فلمی رسالوں کی ادارت کی اس دوران متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور اپنی عمر کا آخری حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔
Sadat Hassan Manto
منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے جنس کو موضوع بنایا دوسری طرف ہندوستان کی جنگ آزادی سیاست، انگریزوں کے ظلم وستم اور فسادات کو افسانوں کے قالب میں ڈھال دیا۔ انہوں نے بیس برس کی ادبی زندگی مین دو سو سے زیادہ کہانیاں تحریر کیں ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرات و بے باکی اردو ادب میں ضرب المثل بن چکی ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے 18 جنوری 1955 ءکو جگر کی بیماری میں وفات پائی۔ وہ لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔