خان بہادر میر ناصر علی دہلوی کا شمار اردو ادب کے صاحب طرز انشاء پردازوں میں ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں اردو ادب کے ایسے نابغہ روزگاروں سے بہت کم واقفیت حاصل ہے اور معدودے چند نام، جو ہمیں نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں یانجی محفلوں میں ان کا تذکرہ ہوتا ہے، سے آگہی حاصل کرتے ہیں۔ہم نے ادب کے مطالعے میں ایک ظلم یہ بھی کیاہے کہ شعراء کو بہت زیادہ وقعت دی ہے جبکہ اسکے مقابلے میں نثرنگاروں کووہ توجہ اوراہمیت نہیں دی ہے،جوکہ انکاجائز حق ہے۔ اس ضمن میں ہمارے محققین اورناقدین نے بھی نثرنگاروں کے مقابلے میں شعرا کو بہت زیادہ اجاگرکیااور تنقید کے میدان میں اپنی بیشترتوجہ شاعری کے محاسن ومعائب اورشعری تخلیقات کے سماجی ، سیاسی اورمعاشی محرکات کے تجزئے پر ْصرف کی ہے، جس کی وجہ سے نثرکے میدان میں میرناصرعلی دہلوی جیسی شخصیات کماحقہ ہماری توجہ حاصل نہ کر سکے۔
میرناصرعلی نے 1847 میں دہلی میں ایک ایسے خاندامیں آنکھ کھولی ، جہاں پشت ہاپشت سے علم وفضل کی روایت چلی آئی تھی۔آپکے والد سید ناصرالدین محمد جلیل القدرعالم دین اورقران کے ساتھ ساتھ دیگرکتب تورات، زبوراورانجیل سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔1857کے فسادات کے دوران سید ناصرالدین محمد کوعیسائیت کی تبلیغ میں رکائوٹ پیداکرنے کے سبب انگریزحاکموں کے ہاتھوں بڑی اذیتیں اٹھانی پڑیں۔انکامطبع جلادیاگیا اورکتب خانہ ضبط کرلیاگیا۔ایسے حالات میں انکے لئے دہلی میں رہنا ناممکن ہوگیا۔لہذا وہ اپنے دوصاحبزادوں ، جن میں ایک میرناصرعلی تھا، کو لیکر لکھنوچلے گئے۔میرناصرعلی کابچپن لکھنو اور اسکے قرب وجوارمیں گزرا۔ جب دہلی کے حالات معمول پرآگئے تومولوی ناصرالدین اپنے بچوں سمیت واپس دہلی آگئے۔
میرناصرعلی کے گھرکاماحول بھی دینی اورمذہبی تھا۔ انکی تعلیم کاآغازبھی حسب روایت قرآن مجید سے ہوا۔ انہوں نے قرآن مجید اپنے والد سے پڑھااوربنیادی دینی علوم بھی والد صاحب سے حاصل کئے۔اسکے بعدعلم فقہ، حدیث ، درس نظامیہ ، دینیات اورمنطق کے علاوہ عربی اورفارسی بھی سیکھی۔گلستان سعد ی پڑھانے کے لئے آپکے والد آپکوغالب کی خدمت میں لے گئے تھے، جس کاذکرمیرناصرعلی نے اس اندازسے کیا ہے۔
” میرے والد ایک دفعہ مجھے غالب کی خدمت میں لے گئے اورعرض کی کہ اس لڑکے کاگلستان پڑھادیاکیجئے۔ غالب کہنے لگاکہ گلستان پڑھانی تومشکل ہے کہوتودوسری گلستان لکھ دوں” میرناصرعلی کے والد کے پاس اکثرانگریزعالم اورپادری مذہبی بحث وتکرارکے لئے آیاکرتے تھے ۔ انکی باتیں سن کر میرناصرعلی کو بھی انگریزی پڑھنے کاشوق پیداہوا۔ا س زمانے میں انگریزی پڑھنابے دین ہونے کے مترادف تھا۔اس لئے خاندان کے بزرگوں سے چھپ کر انہوں نے انگریزی پڑھناشروع کی۔والد کو جب معلوم ہواتومنع کرنے کی بہت کوشش کی مگرمیرناصرعلی نے انگریزی پڑھناجاری رکھااوربالآخردہلی کالج میں داخلہ مل گیا۔اپنی ذہانت اورمحنت کے بل بوتے پر دہلی کالج میں انٹرنس کے امتحان میں اول آئے اورطلائی تمغاحاصل کیا۔میرناصرعلی نے تاریخ اسلام کابھی خوب مطالعہ کیاتھااورعربوں کے زمانہ جاہلیت سے لیکر خلفائے راشدین اوراسکے بعدکے حالات سے پوری طرح واقف تھے۔فلسفہ سے خوب لگائوتھااوریونانی اوریورپی مفکرین کی کتب بھی پڑھی تھیں۔انگریزی ادب میں نظم کو پسند نہ کیا۔انکاخیال تھاکہ شاعری میں کوئی زبان ہماری شاعری کامقابلہ نہیں کرسکتی، البتہ انگریزی نثرکے مداح تھے۔
میر ناصر علی محکمہ نمک میں ملازم رہے تھے اورمحکمہ تعلیم میں ہیڈماسٹرکے حیثیت سے بھی فرائض منصبی نبھائے تھے۔1898 میں حکومت نے انکی خدمات کے اعتراف میں انہیں خان بہادرکے خطاب سے نوازاتھا۔اسکے علاوہ حکومت نے انہیں شیخوپورہ ، لائل پورمیں پانچ قطعہ اراضی بھی دی تھی۔
ادبی لحاظ سے بھی میرناصرعلی کامقام بہت بلندہے۔ وہ ایک عظیم انشاء پرداز، مضمون نگاراورصحافی تھے۔انہوں نے اپنے ادبی زندگی کاآغاز”تیرھویں صدی” نامی رسالے سے کیا،جس کااجراء انہوں نے 1870 میں سرسید احمدخان کے رسالے ” تہذیب الاخلاق ” کے ردعمل میں کیا۔اس رسالے کے ذریعے اس نے سرسید کے بعض مذہبی، تعلیمی اورسماجی خیالات کو ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے ایک دن مطبع آکر مہتمم اوردفترکے منشی کو کہاکہ رسالے کو کہاں کہاں بھجواتے ہیں ، خصوصاً ان مقامات میں ضروربھجوائیں جہاں سے سرسید کے مدرسة العلوم کے لئے مالی معاونت ہوتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ میرناصرعلی سرسید سے کس قدرنظریاتی اختلاف رکھتے تھے۔
سر سید اورمیرناصرعلی کے درمیان چپقلش کی ابتداء ایک مضمون” تیرھویں صدی اورتہذیب الاخلاق” سے ہوئی جوکہ برسوں تک جاری رہی اوراس تنازعے کی اصل وجہ سرسید کی نیچرپرستی کے مقابلے میں عقل پرستی کے حق میں دلائل فراہم کرناتھی۔ اس زمانے میں سرسیدنے فلسفہ اورسائنس کے ذریعے مسلمانوں کے بہبودکاراستہ نکالنے کی کوشش کی اورادب میں حقیقت پسندی کوفروغ دیا، جسکے مقابلے میں میرناصرعلی دہلوی نے شاعرانہ اسلوب میں خیال آرائی اورحسن آفرینی کے جیتے جاگتے مرقعے پیش کئے۔ “تیرھویں صدی”کے مضامین سے اردوادب میں نئے اورمتنوع طرزنگارش کی داغ بیل پڑی،جوعوام اوررخواص میں بے حدمقبول ہوئی۔ اس رسالے کانام بعدمیں تبدیل کرکے”صلائے عام ” رکھاگیاجوتقریباً25سال تک جاری رہا۔اس نئے اورمتنوع طرزفکر کو بعدمیں دلگداز اورمخزن نے مزیدتقویت دی اوریوں اردوادب میں رونوی تحریک کے لئے راہیں ہموارہوگئیں۔یوں ہم بجاطورپر کہہ سکتے ہیں کہ اردونثرمیں رومانوی ادب کی بنیاد میر ناصر علی نے رکھی تھی اور “تیرھویں صدی” اس رجحان کانمائندہ رسالہ ہے۔