تحریر: میر انسر امان آجکل نیٹ کا زمانہ ہے ۔ بھارت کے مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے ،ہم اکثر نیٹ پر بھارت کے اردو اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے بھارت کے اردو روز نامہ اخبار سھارا راشٹریہ کو نیٹ پر کھولا بھارت کی خبروں کے ساتھ ایڈیٹوریل صفحہ پر بھارتی کالم نگار محترمہ تیستا سیتلواڑ کا مضمون جو بھارت کی کالونی بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کی طلبہ ونگ شاتروشبر کے مبینہ دہشت گرد واقعات کے متعلق ہے پڑھا۔تیستا سیتلواڑ کے مضمون پر گفتگو کرنے سے پہلے بین الاقوامی طور پر جاری مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے اور ان کی دنیا پر ایک ہزار سالہ سنہری حکمرانی کی تاریخ مسخ کرنے کے متعلق جاری مہم پر کر لیتے ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بھارت مسلمانوں کے خلاف جاری خود ساختہ دہشت گردی کی مہم کا سرخیل ہے جس میں مسلمانوں کی سنہری تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔
یہ کیوں نہ ہو ہند پر بھی مسلمانوں نے ایک ہزار تک حکومت کی ہے۔ جس کے آثار پورے بھارت میں میں موجود ہیں۔ہم نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے ١٩٨٥ء میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔جب ہمارے ہم منصب عہدہ گوش صاحب نے ٹرنینگ کے بعد ہند کے مسلمان حکمران مغلوں کے بنائے ہوئے قلعوں اورعمارتوں کی اہم جگہوں کی سیر کا پروگرام بنایا اور دہلی کے لال قلعہ، آگرہ کے لال قلعہ اورتاج محل دکھایا تو ہم نے از راہِ مذاق، کوش صاحب سے کہا کہ بھائی یہ ہندوں کا ملک ہے ہندئو اس میں صدیوں سے آبادہیں۔ مجھے اس میں کوئی ہندوئوں کی تاریخی جگہوں کی بھی سیر کرائو۔ توگوش صاحب خودساختہ بولے ، کیا مغل مسلمان تھے؟اس سے اندازہ ہو تاہے کہ بھارت کے پڑھے لکھے شخص کو بھی مسلمانوں کے خلاف تاریخ مسخ کرنے کی کو شش نے کس طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ہم ایک دفعہ نیٹ پر کشمیر کے جہاد کے متعلق ویب کی تلاش میں تھے کہ اچانک لندن کی ترتیب شدہ ایک مسلم وکی ویب کھل گئی۔ اس میں دنیا کے اندر اگر کہیں بھی کوئی پتہ ہلا ہے تو اسے مسلم دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا تھا۔ اس ویب کی ساٹھ صفحات کی تفصیل کے پرنٹ ہم نے نکالے تھے جو اب بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ پرنٹ نکانے کے بعد دیکھاکہ نیٹ پر بھارت کی ترتیب شدہ ایک دوسری ویب مسلم وکی کے نام سے موجود ہے۔
Islam
اسے پڑھاتو لندن کی ترتیب شدہ ویب جیسی تفصیل درج تھی۔ حسن اتفاق کہ ایک دم بجلی بند ہو گئی اور ہم اس کے پرنٹ نہ نکال سکے ۔ بجلی آنے کے ہم نے اس ویب کو نیٹ پر تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر شاید کسی ٹیکنکل خرابی کی وجہ سے گم ہو گئی جو آج تک ہم سے نہ کھل سکی۔خیر یہ دو واقعات ہمارے جیسے ایک عام فرد کے سامنے آئے ہیںتو نہ جانے مسلمانوں کی سنہری تاریخ کو مسخ کرنے اور اسلام کو دہشت گرد ثابت کرنے کے کتنے اورواقعات ہونگے جس کی وجہ سے آج میڈیا میں ہر طرف اسلام کی دہشت گردی کے واقعات ہی واقعات ہیں۔ اب ہم ایک جمہوری اسلامی نظریاتی تحریک کے متعلق کچھ عرض کرتے ہیں جسے لوگ جماعت اسلامی کے نام سے جانتے ہیںجو ١٩٤١ء میں ہند کی تقسیم سے پہلے اس کے بانی سید ابوالاعلیٰ کی زیر صدارت قائم ہوئی۔ یہ جمہوری نظریاتی تحریک اب بھی بھارت،بنگلہ دیش،پاکستان اوردوسرے مختلف ملکوں میں اپنے اپنے جمہوری دستور کے ساتھ موجود ہے ، فعال ہے اورجمہوری طریقے سے سیاست میں حصہ لے رہی ہے۔اس کے دستور میں لکھا ہے کہ وہ اسلام کو جمہوری اور دستوری طریقے سے رائج کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس نے دوسری جماعتوں کے اشتراک سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں پانچ سال حکومت کی۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تین دفعہ شہری حکومت کر چکی ہے۔اس کی ریکارڈکارکردگی کی تعریف بین الاقوامی ڈونرز اور اسٹیٹکسک ریکارڈ ترتیب دینے والی تنظیموں نے بھی اپنی اپنی رپورٹس میں کی ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔بنگلہ دیش میں بھی جماعت اسلامی ایک سیاسی قوت ہے۔بنگلہ دیش میں بھی مخلوط حکومت کا حصہ رہی ہے۔ اس کی قیادت کو ناکردہ گنائوں کی پاداش میں پھانسیوں پر چڑھایا جا رہا ہے۔ پہاڑ جیسے ظلم وستم کے باوجود جماعت اسلامی ،نہ ہی اس کی ذیلی تنظیموں نے نہ تو کبھی انڈر گرائونڈتحریکیںقائم کی نہ کسی ملکی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا۔اس پر اور اس کی ذیلی طلبہ تنظیم شاترو شبر پر مظالم کی مظالم کی داستان پروفیسرسلیم خالد کی بنگلہ دیش میں مظالم کے متعلق کتاب ”البدر”میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ہم صرف دو واقعات درج کر رہے ہیں۔بھارت کی قائم کردہ مکتی باہنی کے ایک عوامی مظاہرے میں شاترو شبر کے ایک کارکن کو پیش کیا گیا۔ مکتی باہنی کے کارکن داہرے کی شکل میں کھڑے تھے۔ اس شاترو شبر کے کارکن کو کہا گیا کہ کھڑا گھودو۔ اس نے سب کے سامنے گھڑا کھودا۔پھر مکتی باہنی کے کارکنوں نے کہا کہو بنگلہ دیش زند ہ باد۔ اس نے جواب میں کہا اسلام زندہ باد۔پاکستان زندہ باد۔ شاترو شبر کے کارکن کا ایک بازو کاٹا گیا۔ پھر کہا گیا کہو بنگلہ دیش زندہ باد۔ اس نے پھر کہا اسلام زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد۔ پھر اس کا دوسرا بازو کاٹا گیا۔پھر کہا گہا کہو بنگلہ دیش زندہ باد ۔اس نے وہی جواب دھرایا ۔اسلام زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد۔پھر اسے زندہ گھڑے میں ڈال کر اوپر مٹی ڈال دی گئی۔اسی طرح کا دوسرا واقعہ بھی ہے۔شاترو شبر کے کارکن کو کہا گیا کہ گھڑا کھودو۔
Pakistan
اس نے گھڑا کھودا۔ کہا گیا اس میں کانٹے ڈالوں۔اس نے اپنے ہاتھوں سے کانٹے ڈالے۔گھڑے کے کنارے کھڑا کر کے کہا گیا۔ کہو بنگلہ دیش زندہ باد ۔اس نے بھی پہلے کارکن کی طرح اسلام زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد۔اس کو بھی فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا اور کانٹوں والے گھڑے میں دال کر اوپر مٹی ڈال دی گئی۔ بنگلہ دیش میں مظالم کی مذید داستان سبھاش چندر بوش کی پوتی اورڈھاکا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کی لکھی گئی کتب کے مطالعہ سے بھی ہو سکتا ہے۔تیستا سیتلواڑ کو شاید ان مظالم کی خبر نہ لگی ہو گی اور شاید انہیں سبھاش چندربوش کی پوتی کی کتاب کی طرف دھیان نہ گیا ہو گا۔ گمان ہے کہ شاید وہ بھی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی بھارتی اور بین الاقوامی مہم کا حصہ بھی ہو،کہ اس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پر امن نظریاتی تحریک جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم شابرو شترکی خود ساختہ دہشت گردی کی اسٹیٹکسک کے ساتھ مضمون لکھا۔
میں بھارت کے لکھاریوں کو بغیر معاوضہ کے مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے حکمرانوں کو حکمرانی کے گُر سمجھائیں جو مسلمانوں نے ایک ہزار سالہ حکمرانی کے دوران استعمال کیے تھے۔ وہ اپنی رعایا کے مذہب کی حفاظت کریںبقول ششی تھرو گائے سے زیادہ انسان کی قدر کریں۔مسلمان ایک انسان کی جان کی خانہ کعبہ سے زیادہ قدر کرتے ہیں،رعایا کی رائے کا احترام، اپنی رعایا کے ہر طبقے سے بنیادی حقوق کا تحفظ، بغیر تعصب کے انصاف کی فراہمی، ان کی عبادت گاہوں کا احترام،رعایا کے صاحب رائے لوگوں کی رائے کو مناسب فوکیت دینا اوران کی ذاتی زندگیوں میں مداخلت نہ کرنا۔ابھی تک آپ کے حکمرانوں نے مسلمانوں پر حکمرانی کے سو سال بھی پورے نہیں کیے کہ پورے بھارت میں اقلیتوں پر ظلم اور سفاکیت کا ریکارڈ قائم ہو گیا ہے۔ بھارت ،مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں اور اپنی کالونی، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور اُس کی ذیلی طلبہ تنظیم شاتر شبر پر مظالم ختم کریں تاکہ آپ کا دور حکمرانی طویل ہو سکے اور دنیا کو منہ دکھانے کے قابل ہو سکیں۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر انسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان