نفاذ اردو کے سلسلے میں عدالت عظمی کے فیصلے کے تین سال مکمل ہونے پر پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر اہتمام عزیز ظفر آزاد کی صدارت میں ”کل پاکستان نفاذ اردو کانفرنس ”منعقد کی گئی جس سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، رہنما جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، صوبائی وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید، صاحبزادہ سلطان علی احمد، سینیٹر میر طاہر بزنجو (نیشنل پارٹی بلوچستان) ، رہنما مسلم لیگ (ق) جناب کامل علی آغا، رکن اسلامی نظریاتی کونسل محترمہ سمیعہ راحیل قاضی، اوریا مقبول جان، پروفیسر اشفاق احمد، ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، ڈاکٹر عارفہ صبح خان، سعدیہ سہیل رکن پنجاب اسمبلی، آمنہ مسعود جنجوعہ، ڈاکٹر نجیب اللہ، جمیل بھٹی، قیوم کاکڑ، قمر ستار، عزیز ظفر آزاد صدر پاکستان قومی زبان تحریک، فاطمہ قمر صدر شعبہ خواتین پاکستان قومی زبان تحریک اور دیگر راہنماؤں نے خطاب کیا۔
سینیٹر جناب میر طاہر بزنجو (نیشنل پارٹی بلوچستان) نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت پاکستان میں غالبا ساٹھ کے قریب بولی جاتی ہیں۔ اگر زبان ذریعہ تعلیم نہ ہو تب اس زبان کے مٹ جانے کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے ترکستان حکومت کی مثال بیان کی کہ انہوں نے اپنی مادری زبان میں تعلیم نہ دی اور ترقی نہ کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہمارے لئے لازم و ملزوم ہے۔ ہم بلوچی ہونے کے باوجود اردو زبان کو پسند اور روزمرہ استعال کرتے ہیں۔ ہمارے شاعر بلوچی کے علاوہ اردو زبان میں بھی شاعری کرتے ہیں۔اگر آپ اپنی مادری زبان کو ذریعہ تعلیم نہیں بناتے ہیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن اردو ہماری رابطے کی زبان ہے۔ انہوں نے قومی زبان اردو ہمارے ملک کی رابطے کی زبان ہے اس کی اپنی ایک اہمیت اور افادیت ہے۔پاکستان قومی زبان تحریک کی شعبہ خواتین کی صدر فاطمہ قمر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سب جسٹس جواد ایس خواجہ کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے تاریخ ساز فیصلہ کے ذریعے پاکستان میں اردو کے فی الفور نفاذ کا فیصلہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ تمام قوم اردو کے نفاذ کے لئے یکسو ہے۔
انہوں نے پاکستان قومی زبان تحریک کی گزشتہ عرصہ کی کارکردگی کی تفصیل بھی پیش کی۔قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے پاکستان قومی زبان تحریک کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اردو زبان رابطے کی زبان ہے ، اردو میں ہر علاقے کی زبان کا لفظ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈپٹی سپیکر کی حیثیت میں اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں حتی کہ وہ کسی اور ملک میں جاتے ہیں یا جائیں گے تب بھی اپنی قومی زبان میں بات کریں گے۔پروفیسر اشفاق احمد بانی پاکستان قومی زبان تحریک نے کہا کہ جب ہم اردو کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو تعلیمی اداروں میں نصاف کے نفاذ کی بات کرتے ہیں یعنی تعلیمی اداروں میں اردو میڈیم لازمی اختیار کیا جائے۔ لیکن افسوس کہ غیر ملکی این جی اوز کی مداد کے ذریعے پاکستان میں اردو میڈیم کو انگریزی میں بدل دیا گیا ۔پاکستان قومی زبان تحریک کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب 2009 میں پنجاب حکومت نے پنجاب کے تعلیمی ادروں میں اردو کو ہٹا کر انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا فیصلہ کیا. اس پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے چند اہل دل اکٹھے ہوئے اور انہوں نے سرکاری اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم کی بحالی کے لئے پاکستان قومی زبان تحریک قائم کرنے کا فیصلہ کیا. اس تحریک کے تحت عوام کو حکومت کے اس فیصلے سے آگاہ کرنے، اس حکومتی فیصلے کے مضمرات پر غور کرنے اور اردو کو دوبارہ ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے بہت سے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں عوامی رابطہ مہم، سیاسی رہنماؤں اور مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رابطے، جلسے جلوس اور مظاہرے شامل تھے.
اس دوران بہت سے اجلاس کے گئے، سیاسی رہنماؤں اور مقتدر شخصیات سے ملاقاتیں کی گئیں، اخبارات میں مضامین اور کالم لکھے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔ پنجاب کے مختلف شہروں کے دورے کیے گئے اور نگر نگر تحریک کا پیغام پہنچایا گیا۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمیعت اہل حدیث، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اکابرین سے ملاقاتیں کی گئیں. فروری 2014 کو ں لیگ کی رہنما ماروی میمن نے قومی اسمبلی میں آئین کی شق 251 میں ترمیم کے لئے بل پیش کیا. اس بل کا مقصد پاکستان میں اردو کے نفاذ کی رہ میں روڑے اٹکانا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا راستہ مسدود کر کے اس ملک کو انگریزی کی دائمی غلامی میں دینا تھا. ہم نے اس بل کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی، اخبارات میں مضامین لکھے، جلسے اور مظاہرے کیے، آخر کار قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انصاف قانون اور پارلیمانی امور نے کمیٹی کے چیرمین جناب محمود بشیر ورک کی قیادت میں اس بل کو مسترد کر کے کوڑے دان کے سپرد کیا. یکم جوں 2014 تحریک کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا جب ہم نے ہمدرد سنٹر لاہور میں نفاذ اردو کانفرنس منعقد کی۔عوام نے اس کانفرنس میں جوق در جوق شرکت کر کے ہمارے موقف کی بھر پور تائید کی.
ڈاکٹر وسیم اختر، اعجاز چودھری، کرامت بخاری، اوریا مقبول جان، اور بہت سے دوسرے مقررین نے پاکستان میں نفاذ اردو کے لئے تحریک کے موقف کو سراہا اور اس کے لئے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا. 29 دسمبر 2014 کو ایوان کارکنان نظریہ پاکستان میں ایک بار پھر نفاذ اردو کانفرنس منعقد کی گئی جہاں شدید سردی اور دھند کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد نے ہمارے موقف کی تائید کی. اس کانفرنس میں دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ جنرل (ر) حمید گل کی شرکت ہمارے حوصلوں میں بے پناہ اضافے کا موجب بنی۔ اسی اثنا میں ہماری تحریک کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر جسٹس جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ کی دبیز فائلوں میں دبے ہوئے جناب کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی جانب سے 2002 میں دائر کردہ نفاذ اردو کے ایک کیس کو نکالا اور اس کی سماعت شروع کر دی. اس موقع پر ہم نے راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں تک تحریک کا پیغام براہ راست پہنچانے کے لئے 28 مارچ 2015 کو راولپنڈی آرٹس کونسل میں ایک کل پاکستان نفاذ اردو کانفرنس کا انعقاد کیا. اس کانفرنس میں راولپنڈی اسلام آباد کے ادیبوں دانشوروں کے ساتھ ساتھ پشاور سے تعلق رکھنے والے ادیبوں دانشوروں اور شاعروں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور پاکستان قومی زبان تحریک کے موقف کی بھر پور تائید کی۔
جنرل حمید گل اس بار بھی ہمارے ساتھ تھے اور ہمارے موقف کے حق میں ہم سے کئی قدم آگے نظر آ رہے تھے۔اس دوران ہم چھوٹے بڑے کئی پروگرام کرتے رہے۔جولائی 2015 میں تحریک کا ایک وفد اسلام آباد گیا جہاں اس نے سپریم کورٹ میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے زر صدارت نفاذ اردو کے مقدمے کی سماعت میں شرکت کی ۔تحریک کی سرگرمیاں جاری رہیں اور انہی کا فیضان تھا کہ ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت نے 2 ستمبر 2015 کو ملک بھر میں یوم اردو منانے کا فیصلہ کیا اور اس دن ملک بھر میں ریلیوں، جلسوں ار جلوسوں کا اہتمام کیا گیا، اخبارات میں مضامین اور کالم لکھے گئے. تحریک کے زیر اہتمام 6 ستمبر 2015 کو لاہور کے الحمرا ہال میں نفاذ اردو/دفاع پاکستان کانفرنس ہوئی جس میں ملک بھر سے دنشوروں، ادیبوں، صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی. اس کی ایک اہم بات اس میں ملک کے ممتاز دانشور اور وکیل جناب ایس ایم ظفر کی شرکت تھی۔ اسی کانفرنس کی ایک خاص بات ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے رکن قومی اسمبلی جناب شبیر قائم کہانی کی شرکت تھی جن کو جناب الطاف حسین کی خصوصی ہدایت پر کراچی سے لاہور بھیجا گیا۔ اس کانفرنس نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ہماری تحریک کی طرف متوجہ کر دیا۔