اردو کے مسائل پر ورشن پٹیل سے تحریک اردو کے وفد کا تبادلۂ خیال
Posted on April 5, 2013 By Noman Webmaster سٹی نیوز
پٹنہ،4 اپریل،(پریس ریلیز) تحریک اردو کے ایک وفد نے تحریک کے صدر محمد کمال الظفر کی قیادت میں جمعرات کو اطلاعات و تعلقات عامہ کے وزیر ورشن پٹیل سے ان کی سرکاری رہائش 5دیش رتن مارگ میں ملاقات کی اور ان سے محکمہ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کئے جانے میں کوتاہی پر افسوس کا اظہار کیا۔
انہیں ایک عرض داشت دے کر ان سے محکمہ میں قائم شدہ اردو سیل کو فعال بنانے محکمہ سے شائع ہونے والے اردو رسالہ ”بہار کی خبریں” میں باضابطہ ایڈیٹر مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ عرض داشت میں اردو تحریک نے اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا ہے کہ ریاست میں اردو دوسری سرکاری زبان ہونے کے باوجود محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کی طرف سے کسی آزاد اردو صحافی کی سرکاری طور پر منظوری نہیں دی گئی ہے۔
اطلاعات و تعلقات عامہ کے وزیر نے وفد کی باتیں غور سے سنیں اور انہو ں نے وفد کو یقین دلایا کہ تحریک اردو نے اردو کے سلسلے میں جن امور کی نشاندہی کی ہے اس پر وہ سنجیدگی سے غور کریں گے اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے اس سلسلے میں عملی قدم اٹھاتے ہوئے 9اپریل کو تحریک اردو کے وفد کے ساتھ ایک اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ اس دن محکمہ کے افسران بھی میٹنگ میں موجود رہیں گے۔ تاکہ محکمہ میں اردو کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے افسروں کو ضروری ہدایات دیں جا سکے۔
اس موقع پر وفد کے قائد اور تحریک اردو کے صدر محمد کمال الظفر نے اطلاعات و تعلقات عامہ کے وزیر کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ 9اپریل کو محکمہ کے افسروں کے ساتھ اردو کے سلسلے میں جو میٹنگ ہو گی وہ مفید او ر کارآمد ثابت ہوگی۔ وفد میں
محمد کمال الظفر کے علاوہ جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی، سکریٹری سید رضا حسین شمشاد، جوائنٹ سکریٹری مظہر عالم مخدومی،رکن شاہ فیض الرحمن ، محمد عارف انصاری اور حذیفہ کمال بھی شامل تھے۔
اردو کے مسائل کے سلسلے میں ریاست کے کسی وزیر سے تحریک اردو کی یہ پہلی ملاقات تھی۔وفد سے تبادلہ خیال کے دوران اطلاعات و تعلقات عامہ کے وزیر ورشن پٹیل نے ارد و کی زبوں حالی کے لئے اردو والوں کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ ان کی کوتاہی کی وجہ سے ہی آ ج اردو زبوں حالی کی شکار ہے۔ اردو والے ہی ا پنے بچوں کو ا ردو پڑھانا نہیں چاہتے۔ اور اردو کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں۔اس ذہنیت کو انہیں بدلنا ہوگا تب ہی اردو ترقی کر سکتی ہے۔