تحریر: نعیم الرحمان شائق پاکستانی آئین کی دفعہ 251 کے مطابق: (1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ (2) انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی ، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔ (3) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر ، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی۔ یہ ہے قومی زبان سے متعلق پاکستانی آئین ۔ جس سے قومی زبان کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ کسی بھی ملک میں قومی زبان انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں قومی زبان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی ہے ، جس کی وہ مستحق ہے ۔گو آئین میں پندرہ برس کے اندر اندر یعنی 1988 ء تک سرکاری و دیگر اغراض کے لیے سرکاری زبان کے استعمال کا عزم کیا گیا ہے ، مگر اب تک اس بات کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے ۔ ہمارے ہاں اب بھی سرکاری و دیگر اغراض کے لیے انگریزی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ ہر جگہ اردو پر انگریزی زبان کو ترجیح دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہماری دستاویزات پر ، ہمارے کاغذات پر ، ہماری تعلیمی اسناد پر ۔۔۔ گویا ہر جگہ انگریزی نظر آتی ہے۔ ارد و سے اس حد تک اغماض ہمارے حق میں کسی صورت بہتر نہیں ہے۔
اردو سے اس حد تک اغماض برتنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل بڑی تیزی سے اپنے ادب سے دور ہوتی جارہی ہے ۔ دسویں جماعت کا کوئی طالب ِ علم علامہ اقبال کے کسی ایک شعر کی تشریح بھی بہ مشکل کر پاتا ہے ۔ ہمارے ادب اور شعرو شاعری میں بہت سا علمی ذخیرہ موجود ہے ۔ اس میں ہمارے مفکرین ، ادبا ، شعرا وغیرہ کی دانشوری پنہاں ہے ۔ مگر اردو کی کم زوری کے باعث ہمارے طلبہ و طالبات اس مستفید نہیں ہو سکتے ۔یوں وہ اپنے اس ادبی و علمی ذخیرے کو سمجھنے میں نا کام رہتے ہیں ، جس کے لیے ہمارے ادبا، شعرا اور مفکرین نے بڑی محنت اور تگ و دو کی ۔ کسی بھی قوم کے لیے یہ صورت حال لائق ِ تعریف نہیں ہے ۔ جس کا ازالہ ہر صورت ہونا چاہیے۔
پھر یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ہم اپنی زبان کو علمی بنانے کے بجائے انگریزی میں سائنس ، فلسفے ، منطق ، ریاضی وغیرہ ایسے دقیق علوم پڑھنےاور پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔جس سے ہمارے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ ہمارے اساتذہ بھی بڑی تیزی سے اردو سے نا بلد ہوتے جارہے ہیں ۔ ہم نے اپنی زبان کو علمی بنانے کے لیے ذرا بھی کوشش نہیں کی ۔ جس سے ہماری اپنی زبان صحیح طور پر پروان نہیں چڑھ سکی اور انگریز ی کا مقابلہ نہیں کر سکی ۔عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مسلم دنیا میں بہت زیادہ علمی ترقی ہوئی ۔ ہارون الرشید نےبغداد میں بیت الحکمت نامی ایک ادارے کی بنیاد رکھی تھی ۔جس میں دنیا بھر سے علمی کتابیں منگوائی جاتی تھیں ۔ پھر ا ن کتابوں کے ترجمے کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ ہارون الرشید نے بیت الحکمت کے دارالترجمہ کے لیے وقت کے بہترین اور مستند علما و مترجمین کا انتظام کر رکھا تھا ۔ جنھیں بھاری بھر قسم کا مشاہر ہ دیا جاتا تھا ۔ تاکہ وہ معاشی قیودات سے آزاد ہوکر اس علمی کام میں اپنی ساری توانائیاں صرف کریں ۔ بھلے ہارون الرشید نے یونانی ، رومی ، سنسکرت، فارسی وغیرہ کی ، جو اس وقت علمی زبانیں سمجھی جاتی تھیں ، ترویج و اشاعت کے بجائے اپنی زبان کو علمی بنانے کابیڑا اٹھایا ۔ اگر ایسے اقدامات ہماری حکومتیں اور متعلقہ حکام بھی کرنے لگیں تو ہماری زبان کے ساتھ ساتھ ہماری تعلیم پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
Village
جب کسی دور دراز کے گاؤں کا ایک ہو نہار بچہ اپنے گاؤں کے چھوٹے سے اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرکے شہر کا رخ کرتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس نے میٹرک کا امتحان بغیر نقل کیے اچھے نمبروں سے پاس کیا ہوتا ہے۔ وہ شہر کا رخ اس امید کے ساتھ کرتا ہے کہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ایک اچھا ڈاکٹر یا انجینیر بن کر ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔ وہ سائنس اور ریاضی میں مہارت ِ تامہ کا حامل ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہی وہ شہر کے کسی اچھے سے کالج میں جاتا ہے تو حیران و پریشان ہو جاتا ہے۔ یہاں اسے ہر جگہ انگریزی کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ یہاں مروجہ مضامین اردو کے بجائے انگریزی میں پڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ عمل اس کی پڑھائی کو شیدید متاثر کرتا ہے ۔کیوں کہ اس نے تمام مضامین اردو میں پڑھے ہوتے ہیں ۔ یوں اسے انگریزی کی کمزوری کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
یہ اردو کو اہمیت نہ دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہماری شرح ِ خواندگی کا اس طرح اضافہ نہیں ہو رہا ، جس طرح وقت کا تقاضہ ہے ۔ جب کہ ہم سے کم ترقی یافتہ ممالک شرح ِ خواندگی میں ہم سے آگے ہیں ، جو کہ ہمارے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے ۔ ڈاکٹر منظور اعجاز لکھتے ہیں : “پاکستان میں ہر چیز کے لیے شارٹ کٹ طریقہ اختیا ر کیا جا تا ہے ۔لسانی پہلو سے یہ شارٹ کٹ انگریزی کو ذریعہ ِ تعلیم بنا کر اپنایا گیا ہے ۔ دیہاتوں ، قصبوں اور شہروں کے محلوں میں ہر جگہ انگریزی میڈیم اسکول کھل گئے ہیں ۔ حکومتیں بھی یہ نوید دیتی رہتی ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں بھی پہلے انگریزی زبان پڑھائی جائے گی ۔ گویا کہ یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مادری زبان کی بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے ملک تیزی کے ساتھ ترقی کرے گا ۔ اب یہ سار کچھ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے لیکن کیا اس سے پاکستان میں تعلیمی معیار بہتر ہوا ہے یا عوامی شعور میں کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے ؟ ظاہر بات ہے کہ نہ تو خواندگی کی شرح میں بہتری آئی ہے اور نہ ہی معیار ِ تعلیم بہتر ہوا ہے ۔ اس کے الٹ جن ملکوں میں انگریزی کی جگہ مادری زبان کو ہی ترجیح دی گئی، تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔”
English
(روز نامہ جنگ ، 11 فروری 2015ء ) میں اس بات کا برملا اعتراف کرتا ہوں کہ انگریزی ایک اہم زبان ہے۔ انگریزی زبان کی عالم گیریت سے کوئی انکار نہیں۔ دنیا بھر میں یہ زبان استعمال ہو رہی ہے ۔ کون سا ملک ہے ، جہاں یہ زبان مستعمل نہ ہو۔ یہ بات قابل ِ ستایش ہے کہ ہماری درس گاہوں میں انگریزی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے ۔ میں انگریزی کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے کا زبردست حامی ہوں ۔ لیکن میں صرف اتنی استدعا کرتا ہوں کہ قومی زبان کو اس کا مقام دیا جائے ۔ درس گاہوں میں دقیق مضامین کو اردو میں پڑھنے اور پڑھانے کو انگریزی میں پڑھنے اور پڑھانے پر ترجیح دی جائے ۔ اردو کی تدریس کا خاص اہتمام کیا جائے ۔ تاکہ ہماری اپنی زبان بھی پروان چڑھ سکے ۔ اس کے علاوہ کاغذات ، اسناد وغیرہ میں بھی اردو کو اولیت دی جائے ۔ ہمارا آئین بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے۔