تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال سید احمد شاہ پطرس بخاری اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم تھے۔ہم نے زمانہ طالب علمی میں ان کے مضامین لازمی پڑھے ہوں گے ۔پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ انگریزی کے پروفیسر تھے اور انگریزی میں اتنی قابلیت تھی کہ انہوں نے امریکہ کی جامعات میں انگریزی پڑھائی۔پطرس بخاری یکم اکتوبر 1898ء میں پشاور میں پیدا ہوئے ۔گھر میں ناظرہ قرآن پڑھا ،فارسی پڑھنے کے بعد ان کو نو برس کی عمر میں مشن اسکول پشاور میں داخل کروایا گیا ۔جہاں سے 1913ء میں پندرہ برس کی عمر میٹرک کیا ،گورنمنٹ کالج لاہور میں 1922ء تک تعلیم حاصل کی۔ 1925ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان گئے ، کیمبرج یونیورسٹی کا انتخاب کیا، انگریزی ادب میں سند حاصل کی ۔بخاری صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت آغاز کیا اور 1935ء تک منسلک رہے ۔یکم مارچ 1947ء کوپطرس نے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا ،جہاں 1950ء تک خدمات انجام دیتے رہے ۔
آپ کے شاگردوں میں فیض احمد فیض، ن م راشد، حنیف رامے بطور خاص شامل ہیں۔دوسری طرف ریڈیوکا قیام ہوا، تو بخاری نے ریڈیو جوائن کر لیا 1936ء میں ڈپٹی ڈائریکٹر کا چارج سنبھالا۔ 1939ء کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل مقررہوئے۔ اور 1940ء میں مستقل کنٹرولر مقرر کیے گئے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکہ اور کینیڈا کا دورہ کیا۔ تقاریر لکھنے کے لیے بخاری صاحب کو بھی ساتھ لے لیا۔ یہ تقاریر”Pakistan Heart of Asia” کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔
Syed Ahmed Shah Patras Bukhari
پطرس بخاری نے اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ سے کیا۔ اس وقت سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر M.E. Hardy تھے ،جو بخاری کو ایک کالم کا سولہ روپیہ معاوضہ ادا کرتے تھے جس کی قدر اس زمانے میں تین تولہ سونے سے زائد تھی۔پطرس بخاری نے “پطرس” کا قلمی نام سب سے پہلے رسالہ “کہکشاں “یونانی حکماء اور ان کے خیالات” کے لئے استعمال کیا۔
ان کی بیشتر تحریریں کارواں، کہکشاں، مخزن، راوی اور نیرنگِ خیال میں اشاعت پذیر ہوئیں۔ان کے خطوط بھی خاصے کی چیز ہیں، زبان سادہ ہے اور موضوع ہیںخاندانی امور ،دوستوں سے شکوے ، ملازمت کی دھوپ چھائوں وغیرہ پطرس بخاری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی مزاح نگاری کو تمسخر اور طنز سے آلودہ نہیں ہونے دیتے ۔
ان کی زندگی میں صرف “پطرس کے مضامین” ہی شائع ہو ئی تھی ،لیکن اب تک ان کی درج ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔پطرس کے خطوط (خطوط کا مجموعہ جو نا مکمل ہے )افسانے ، ڈرامے اور ناو لٹ خطباتِ پطرس (تقاریرکا نا مکمل مجموعہ)تنقیدی مضامین،تخلیقاتِ پطرس ،اقوامِ متحدہ میں تقاریر کا مجموعہ (انگریزی)پطرس بخاری انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف تھے ۔اس لیے ترجمہ کرنے لگے ۔انگریزی کے ساتھ وہ اردو کے بھی ماہر تھے ،یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے تراجم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ویسے بھی وہ ترجمہ کو تخلیقی عمل مانتے تھے ۔ مارخم ،گونگی جورو، صید و صیاد،تائیس ،سیب کا درخت ،نوعِ انسانی کی کہانی (دنیا کی ابتداء از ہینڈرک فان لون 522 صفحات کی مکمل کتاب)بچے کا پہلا سال،وغیرہ ان کے شاہکار تراجم ہیں ۔
Syed Ahmed Shah Patras Bukhari
پطرس بخاری کے مضامین ہمارے ملک کی درسی کتب میں شامل ہیں، یہ اعزاز کوئی کم نہیں، اس کے علاوہ 1945 ء میں برطانوی سرکار نے آپ کو(CIE )سے نوازا ۔ آپ نے 1951ء ـ 1954ء تک اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔2003 ء میں حکومت پاکستان نے ہلالِ امتیاز سے نوازا۔اقوامِ متحدہ میں تیونس کی آزادی کی حمایت میں کی ، حکومت تیونس نے آپ کے اعزاز میں سڑک کا نام “پطرس بخاری” کے رکھا۔پاکستان پوسٹ نے یکم اکتوبر 1998ء کو آپ کے سو سالہ جشن پیدائش کے یادگار کے موقع پر 5 روپے کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
میرا” سویرے جو کل آنکھ میری کھلی” کتے “مرحوم کی یاد میں”مرید پور کا پیر” ہاسٹل میں پڑھنا ” لاہور کا جغرافیہ” جیسی تحاریر کے سبب ان سے ابتدائی تعارف ہوا تھا ۔ان کے انداز بیاں ،روانی ،کردار نگاری ،مزاح نے متاثر کیا تھا ۔بعد میں سوائے چند ایک کے سبھی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔میں ان کو اپنے اساتذہ میں شمار کرتا ہوں، جن کو پڑھ کر اردو سیکھی ۔وہ اپنی کتاب مضامینِ پطرس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں،اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے ،تو مجھ پر احسان کیا ہے ۔ اگر آپ نے کہیں سے چر ائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے، تو مجھے آ پ سے ہمدردی ہے ۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔ تو لایا تبسم کے روشن سویرے اے پطرس بہت خوب ہیں کام تیرے
Syed Ahmed Shah Patras Bukhari
پطرس بخاری پیدائشی دل کے مریض تھے ،عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بیماری بڑھی ،پھر وقت آیا کہ دل کے دورے بار بار پڑنے لگے ۔وہ اکثر بے ہوش ہوجاتے ۔ کمزوری بڑھتی گئی ،مگر دفتر جانا نہ چھوڑا۔ڈاکٹروں نے انہیں بستر پر آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا ،لیکن 4 دسمبر 1958ء کو ڈاکٹرکے مشورے کے برعکس بستر سے اْٹھے ، ٹہلنا شروع کردیا، تھوڑی دیر کے بعد بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ صبح چھ بجے سورج طلوع ہونے سے پہلے اردو کے عظیم مزاح نگار 5 دسمبر 1958ء کو نیویارک امریکا میں وفات پا گئے ۔ یادگارِ پطرس کے طور پر اپنی تحریر کا اختتام انکی ایک خوبصورت فارسی غزل کے دو اشعار سے کررہا ہوں۔ ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد ہم آں چشمے کہ نامِندَش سخن گو، راز دارم شد مپرس اے داورِ محشر، چہ می پرسی، چہ می پرسی نگاہ حسرت آلایم کہ می بینی، بیانم شد
(ترجمہ )ا ن تمام داغوں کو جو میرے دل پر تیرے عطا کردہ تھے ،میں نے بہت احتیاط سے رکھا، وہ آنکھ بھی جسے سخن گو (راز فاش کرنے والی) کہا جاتا ہے، میری راز داں تھی (محبت کا راز فاش نہیں کرتی تھی)اے داورِ محشر نہ پوچھ، تو مجھ سے کیا پوچھنا چاہتا ہے ؟ (میں کیا بتاؤں) میری حسرت و یاس بھری آنکھوں میں دیکھ لے ،تجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔