تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری ابن انشا کا شمار اردو کے ان مایہ ناز قلمکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نظم و نثر دونوں میدانوں میں اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ ایک جانب وہ اردو کے ایک بہت اچھے شاعر تھے دوسری جانب وہ مزاح نگاری میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتے تھے اور کالم نگاری اور سفرنامہ نگاری میں ایک نئے اسلوب کے بانی تھے۔
ابن انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ء کو موضع تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔
انہوں نے 1960ء میں روزنامہ امروز کراچی میں درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ 1965ء میں روزنامہ انجام کراچی اور 1966ء میں روزنامہ جنگ سے وابستگی اختیار کی جو ان کی وفات تک جاری رہی۔ وہ اک طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر رہے۔
زندگی کے آخری ایام میں حکومت پاکستان نے انہیں انگلستان میں تعینات کر دیا تھا تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں لیکن سرطان کے بے رحم ہاتھوں نے اردو ادب کے اس مایہ ناز ادیب کو ان کے لاکھوں مداحوں سے جدا کر کے ہی دم لیا۔
ابن انشا کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگر تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں اس بستی کے ایک کوچے میں اور دلِ وحشی شامل ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کو کئی خوبصورت سفرنامے بھی عطا کئے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافرشامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصہ ایک کنوارے کا قابل ذکر ہیں۔ ابن انشا کا انتقال 11 جنوری 1978ء کو لندن کے ایک اسپتال میں ہوا اور انہیں کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازےمیں کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایکگھڑی جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ے اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا