تحریر : ایم پی خان گذشتہ دنوں اردو ادب کے مطالعہ کے دوران اردوکے مشہورنائول نگاررتن ناتھ سرشارکانائول ”طوفان بدتمیزی”نظرسے گزرا۔اس نائول سے متعلق تحقیق کرنے اور معلومات حاصل کرنے کی خاطرانٹرنیٹ پر گوگل میں تلاش شروع کردی ۔گوگل میں تلاش کے بعدایک طریقہ امیج سرچ کاہوتاہے، جہاں موضوع سے متعلق تصاویرپیش کی جاتی ہیں۔میری حیرت کی انتہانہ رہی جب میں نے دیکھاکہ ”طوفان بدتمیزی” کے ساتھ گوگل نے جوجوتصاویرپیش کیں، ان میں اکثریت ہمارے سیاسی لیڈروں کی تھیں۔میری توجہ نائول سے ہٹ گئی اورطوفان بدتمیزی کے اصل مفہوم پرغورکرنے لگا۔ادب کی کتابوں میں ”طوفان بدتمیزی” ہمیشہ طنزومزاح کے طورپر استعمال ہواہے، جس کی مثال” مضامین ملارمورزی” ہے،جس میں انہوں نے 1940میں طوفان بدتمیز ی کالفظ استعمال کیاہے جبکہ رتن ناتھ سرشارنے اس نام سے ایک ناول بھی لکھاہے۔
انٹرنیٹ پر سرچ سے مجھ پر کم ازکم گوگل کایہ تعصب تومنکشف ہواکہ بدتمیزی کے ارتکاب کے لئے اس نے صرف ہمارے قائدین کاہی کیوں انتخاب کیا۔کیونکہ بدتمیزی تو کسی سے بھی سرزدہوسکتی ہے، خواہ معاشرے کاکوئی عام فردہویا کوئی بہت بڑاسیاسی لیڈرلیکن جہاں تک ”طوفان بدتمیز ی” کاتعلق ہے ،تویہ کام کسی عام آدمی کے بس کانہیں ہے،کیونکہ عام لوگ ایڑی چوٹی کازورلگائے، تب بھی بدتمیزی کاطوفان برپانہیں کرسکتے بلکہ وقتی طورپر ہلکی پھلکی بدتمیزی سے منہ کاذایقہ بدلتے ہیں، جس کامعاشرے اورملک وملت پر بہت کم اثرہوتا ہے۔
طوفان بدتمیزی بلکہ سونامئی بدتمیزی برپاکرنے کے لئے ایسے ہی افرادکاہوناضروری ہے جوکسی نہ کسی شکل میں لیڈرکے زمرے میں آتے ہوں اوروہ کسی خاص درجے میں اعلیٰ حکومتی عہدے پرفائزہوںاور جنکی انفرادی اوراجتماعی زندگی کا کوئی گوشہ میڈیاکے اثررسوخ سے باہرنہ ہو۔موجودہ حالات میں پاکستان کے سب سے بڑے اورمقدس ادارے،عدالت عظمیٰ کے باہرطوفان بدتمیزی کے مناظردیکھے جاسکتے ہیں۔
Panama Leaks
پانامہ کے مقدمے کے فریقین ملک کے دوبڑی جماعتیں سماعت کے بعدعدالت کے باہر میڈیاکے سامنے ایک دوسرے کے خلاف طوفان بدتمیز ی کی انتہاکردیتے ہیں۔حالانکہ کسی مہذب قوم کایہ شعارنہیں ہے۔دنیاکے ہرملک میں سیاسی قائدین کے خلاف قانونی کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن وہاں پوری قوم غیرجانبداری سے عدالتی فیصلے کاانتظارکرتی ہے۔جبکہ پاکستان میں لیڈروں کے ورکرزان سے زیادہ جذباتی اندازمیں اپنے قائدین کے موقف کی تائیدمیں آپس میں مشت وگریباں ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ پڑھے لکھے اورمہذب افرادبھی ہاتھاپائی اورگالم گلوچ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔
ایسے حالات میں ہمارے لیڈروں کی بے حسی قابل دید ہوتی ہے جب وہ یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ ایسے مقامات کاایک خاص تقدس ہوتاہے اوریہاں ہونے والی کارروائیوں کاایک خاص طریقہ اوراس پر بحث کرنے کاسلیقہ ہوتاہے۔مخالفین کو مخاطب کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ایسے مواقعوں پر احترام کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ہونایہ چاہئے تھاکہ تمام فریق اورانکے سپورٹرزعدالت عالیہ کے فیصلے کاانتظارکرتے، دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوجاتا،لیکن کیاکرے ”طوفان بدتمیزی”اٹھاناان کی کمزوری ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے طوفان بدتمیزی کے یہ مناظرہماری نظروں سے گزررہے تھے کہ کل رات توارکان پارلیمنٹ نے حد ہی کردی۔پاکستان تحریک انصاف اورمسلم لیگ نون کے اعلیٰ عہدیداراسمبلی فلورپرآپس میں گتھم گھتاہوگئے۔دونوں طرف سے ایکدوسرے پر تھپڑوں اورگھونسوں کی بارش ہوئی عظمت انسانی کااس قدراستحصال کسی عام جگہ میں نہیں بلکہ ملک کے اہم ادارے جہاں پاکستانی قوم کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں اورملکی ترقی کے لئے نئے نئے قانون وضع کئے جاتے ہیں۔ایسی ہی مقامات پرہمارے لیڈروں کااس قدرغیرذمہ دارانہ رویہ اوراجلاس کے دوران میڈیاکے کیمروں کے سامنے ”طوفان بدتمیزی”برپاکرناپارلیمانی تاریخ کاایک سیاہ باب ہے۔