تحریر : آصف خورشید رانا بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولہ کے قصبہ اڑی میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں ہے ۔علی الصبح ہونے والے اس حملے میں بیس بھارتی فوجی ہلاک اور جبکہ تیس سے زائد زخمی ہیں بھارت کی جانب سے چار حملہ آوروں کے بھی مارے جانے کا دعوٰ ی کیا گیا ۔ یہ حملہ ایسے علاقہ میں ہوا جہاں بھارتی فوجیوں کی سیکورٹی ہائی الرٹ رہتی ہے ۔ بھارتی فوج کے مطابق یہ حملہ فدائی کارروائی تھی جبکہ یہ سوالات دینے سے گریز کیا گیا کہ اس قدر ہائی الرٹ سیکورٹی زون میں حملہ آور کیسے پہنچ گئے ۔حسب معمول ابھی حملہ جاری تھا کہ بھارت نے کسی قسم کی تحقیق کے بغیر ہی الزام پاکستان پر لگا دیا بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ (جو گزشتہ چند دنوں میں تین مرتبہ مقبوضہ وادی کا دورہ کر چکے تھے اور اپنی پوری کوشش کے باوجود قابل ذکر کشمیری کمیونٹی سے ملاقات نہ کر سکے )نے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیتے ہوئے اپنا امریکہ و روس کا دور منسوخ کرکے وادی میں جانے کا اعلان کر دیا ۔بھارتی فوج جو یہ جواب دینے سے قاصر ہے کہ ہائی سیکورٹی زون میں کیسے چار فدائی گھس گئے۔
کیمپ کے اند ر سے کس کس نے حملہ آوروں کو اندر گھسنے میں مدد فراہم کی اور اس وقت کیمپ کے بیرونی دروازوں پر موجود پہریدار کہاں تھے فوری طور پر اعلان کر دیا کہ حملہ آور وں کا تعلق جیش محمد سے تھا اورروایتی الزامات کہ ان سے ایسا اسلحہ ملا ہے جن پر پاکستانی مہریں لگی تھیں ، جوس کے ڈبے پاکستانی تھے وغیر وغیرہ۔ایک اور اہم سوال جو اسی سے جڑا ہے وہ یہ ہے کہ دو دن گزرنے کے باوجود ابھی تک بھارت نے حملہ آوروں کی نعشیں میڈیا پر نہیں دکھائیں ، جبکہ اس سے قبل ہر حملہ کے بعد بھارتی فوج کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حملہ آوروں کی نعشیں میڈیا میں دکھا کر یہ ثابت کرے کہ وہ ایک بہادر فوج ہے۔
اڑی کے علاقہ میں ہونے والی یہ کارروائی اس لحاظ سے بھی غیر معمولی نوعیت کی ہے کہ ایک طرف تحریک آزادی عروج پر ہے تین ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے کرفیو اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود کشمیری سڑکوں پر ہیں ۔غذائی قلت ، ادویات اور دیگر طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود کشمیر کے لوگ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی تیار نہیں ہیں اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ کشمیری ایک سو سے زائد نوجوانوں کی جانوںا ور سینکڑوں کشمیریوں کی آنکھوں کی بینائی کی قربانی دے کر دنیا کی توجہ ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر کی جانب کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان نے بھی عالمی سطح پر اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔
Nawaz Sharif
پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے دنیا کے ممالک میں کشمیریوں کی آواز اٹھانے کے لیے خصوصی نمائندوں کا تقرر ، مقبوضہ کشمیر میں غذائی قلت کو دور کرنے اور طبی امداد فراہم کرنے کے لیے پاکستان سے امدادی خوراک اور ادویات سمیت ڈاکٹرز بھیجنے کا اعلان ، دنیا بھر میں موجود وزارت خارجہ کے ڈیسک کو متحرک کرنا اور پاکستان میں موجود تمام ممالک کے سفراء کو کشمیر یوں کی حالت زار اور بھارت کی بربریت سے آگاہ کرنے کی مہم سے بھارت خاصا پریشان تھا۔اسی دوران پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے باہمی مشورہ سے فیصلہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران بھرپور طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا جبکہ امریکی صدر باراک اوباما ، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر بیانات نے بھی بھارتی پالیسی ساز کوبہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا جبکہ بھارت کے اپنے ملک سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں کہ کشمیر کے مسئلہ کا سیاسی حل نکال لینا چاہیے ورنہ یہ بھارت کے گلے کی ہڈی ثابت ہو سکتا ہے۔ایک اور اہم نکتہ جوبیان کرنا ضروری ہے کہ گزشتہ تین ماہ کی اس تحریک کے دوران جو ایک مجاہد کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔
کشمیر عسکریت پسند تنظیموں نے انتہائی تدبر اور عقل مندی کے ساتھ سیاسی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا اور تحریک کے نتائج تک اپنے بڑے بڑے آپریشن روک دیے ۔مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیرکی سیاسی و عسکری حریت پسند قیادت نے باہمی رضامندی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ سیاسی تحریک کے دوران کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گے ۔کشمیر کی عسکری تنظیمیں جن میں حزب المجاہدین ، لشکر طیبہ ، جیش محمد سرفہرست ہیں ان کمانڈرز حملہ کرنے کے بعد کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے کیونکہ یہ تنظیمیں اپنے حق کے لیے ہتھیار اٹھا کر اپنے بچوں بوڑھوں اور خواتین کی عزت و عصمت اور جان کے تحفظ اور آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں ان کو یہ حق دنیا کا ہر قانون دیتا ہے ۔ بھارت فوج کے بل بوتے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجودکشمیریوں کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے ایسے حالات میں آزادی کے لیے ہتھیار اٹھانا اور بھارتی فوج کا مقابلہ کرنا ان کا حق ہے ۔لیکن اڑی حملہ پر کسی بھی تنظیم نے کسی قسم کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان تنظیموں کی قیادت بہرحال اس موقع پر اس طرح کی کارروائی کرکے اپنی ہی تحریک کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کارروائی کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے اور کون ہے جو اس طرح کے اقدامات سے تحریک آزادی کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور تین ماہ کی جہد مسلسل ،قربانیوں ، شہادتوں اور عالمی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ پیدا ہونے والی ہمدردی کو کون ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کا واضح جواب موجود ہے کہ صرف بھارت ہی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ منسلک کر کے متنازعہ بنائے رکھے ۔کارروائی ختم ہونے سے پہلے ہی وزیر داخلہ کا پاکستان پر دہشت گرد ملک ہونے کا الزام ، بھارتی میڈیا کا مسلسل پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ، بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت کی حملہ کے بعد پاکستان کو واضح الفاظ میں دھمکیاں ، بھارت کے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی جانب سے میڈیا پر پاکستان کے مخصوص علاقوں میں محدود حملوں پر ابھارنا اور ایٹمی حملوں کی دھمکیاں یہ ثابت کرتا ہے کہ اس حملہ کے پیچھے عزائم کچھ اور ہی تھے۔
Uri Indian Camp Attack
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا بھارت پاکستان پر محدود حملے کا ارادہ یا اس کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا صرف اور صرف پاکستان اور عالمی برادری کی توجہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ہٹانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ عالمی سطح پر بھارت ہمدردی حاصل کر سکے اور پاکستان کے وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والی تقریر سے قبل ہی فضا اپنے لیے ہموار کر سکے ۔ممبئی حملہ ہو یا پٹھانکوٹ میں فوجی ڈپو پر حملہ بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت نے ہمیشہ پاکستان پر محدود حملوں کے آپشن کواپنانے کی ترجیح دینے کی کوشش کی ۔ لیکن اندورنی کہانی یہ ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد بھی جب اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا اور اس میں یہ تجویز رکھی گئی تو بھارتی عسکری قیادت نے دو ٹوک انکار کر دیا کہ بھارت کی فوج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ پاکستان پرمحدود پیمانے پر حملے کی کامیابی کی گارنٹی دے سکے لہٰذا یہ آپشن چھوڑ دیا گیا ۔ پٹھانکوٹ پر بھی ایسا ہی ہو الیکن اس کے ساتھ اجیت ڈول ڈاکٹرائن کے تحت فاٹا،کراچی اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردوںکو بھرپور مدد فراہم کرنے اوران علاقوں میں کارروائیاں تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ یہی وہ وقت تھا جب پاک آرمی آپریشن ضرب عضب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہر حد تک جانے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ان علاقوں میں بھارتی نیٹ ورکس بے نقاب کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف کمر توڑ کارروائیوں میںمسلسل کامیابی کی وجہ سے بھارت کا یہ ڈاکٹرائن ناکام ہورہا تھا کہ پھر سے اڑی حملہ سامنے آ گیا۔
بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت نے ایک دفعہ پھراپنے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان پر محدودحملوں کے لیے پر تول رہی ہے لیکن درحقیقت جو اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا تھا اس کی تفصیلات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم مودی سمیت تمام سیاسی قیادت اس بات پر متفق نظر آئی کہ پاکستان کے خلاف محدود حملوںکے آپشن کو استعمال کرنے کا وقت آ چکا ہے تاہم عسکری قیادت نے پھر واضح کیا ہے کہ فی الحال ایسے آپشن کی کامیابی کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی اور کسی بھی جذباتی اور فوری حملے سے اجتناب کرنے کا کہاجس پر اتفاق رائے کرتے ہوئے ایک اور اہم اور محدود اجلاس بلایا گیا جس میں بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ راج ناتھ ، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور وزیر دفاع منوہر پاریکر موجود تھے اس موقع پر اجیت ڈول اور دلبیر سنگھ نے ممکنہ آپریشنز اور ان کے دو رس نتائج کے متعلق بریفنگ دی۔ بعد ازاں بھارت صدر کو بھی اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ۔ اس اجلاس کی کچھ تفصیل جو سامنے آ سکیں ہیں اس کے مطابق بھارت کی عسکری قیادت نے جہادی تنظیموں کی قیادت کو نشانہ بنانے ، علیحدگی پسند بلوچ رہنمائوںکو مدد فراہم کرنے ، کراچی میں دوبارہ سے دہشت گرد نیٹ ورک سرگرم کرنے اور افغانستان کے ذریعے فاٹا میں دہشت گرد بھیجنے کے اقدامات شامل ہیں۔
اس ساری صورتحال میں پاک فوج بھی غافل نہیں ہے ۔ بھارت کی جانب سے ایسی اطلاعات کے بعد آرمی چیف نے کورکمانڈر ز کانفرنس میں دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ وہ خطے میں پیش آنے والے تمام واقعات اور ان کے اثرات سے آگاہ ہیںاوربغور جائزہ لے رہے ہیں ۔فوج بلا واسطہ اور بالواسطہ ، روایتی و غیر روایتی ہر قسم کے خطرات کا جوب دینے کے لیے تیار ہے ۔اس موقع پر فوج کی آپریشن تیاریوں ، اندرونی و بیرونی سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ اس لحاظ سے بھارتی قیادت کو کسی بھی قسم کے بیرونی ایڈونچر سے باز رہنا چاہیے بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان پہلے کی نسبت کہیں ذیادہ مضبوط اور متحد ہے۔یہ بھارت کے لیے بھی خطرناک ہے اور اس کے اثرات پورے جنوبی ایشیا تک پھیل سکتے ہیں۔