اْڑی واقعہ کی عالمی تحقیقات کی تجویز

Uri Attack

Uri Attack

تحریر : سید توقیر زیدی
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اْڑی حملے کی بین الاقوامی تحقیقات کرا لی جائیں۔ کسی بھی واقعہ سے پہلے بھارت ہمیشہ تحقیقات سے قبل ہی اعلان کر دیتا ہے کہ اس میں پاکستان کی ایجنسیاں یا غیر ریاستی عناصر ملوث ہیں، اِسی لئے ہم غیر جانبدار تفتیش کے لئے عالمی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کشمیر میں اِس وقت آزادی کی جو تحریک چل رہی ہے، اِس طرح کے حملے سے پاکستان اور کشمیریوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ بھارتی فورسز کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں سے توجہ ہٹتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارت نے بے بنیاد الزام لگایا ہو۔ جب صدر کلنٹن برصغیر کے دورے پر آئے ہوئے تھے تو کشمیر میں بہت بڑا واقعہ ہوا تھا، جس کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھارت نے خود کرایا تھا، اس کے باوجود پاکستان مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حملے کی تحقیقات میں ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ جس علاقے میں حملہ ہوا، وہاں بھارتی فوج اتنی بڑی تعداد میں تعینات ہے کہ وہاں سے کسی قسم کی دراندازی ناممکن ہے۔

الزام تراشی تو بھارتی حکومت کا شیوہ ہے۔ ایک واقعے کی جانب سرتاج عزیز نے اشارہ بھی کر دیا ہے،جب امریکی صدر پر یہ تا ثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان نے اس دورے کے موقع پر دہشت گردی کا واقعہ دورے کو سبوتاڑ کرنے کے لئے کروایا ہے، لیکن صدر کلنٹن نے اِس کا کوئی اثر بھی نہیں لیا تھا۔ اب بھی امریکہ تو بھارت کو یہی مشورہ دے رہا ہے کہ کشیدگی دور کرنے کا واحد حل مذاکرات ہی ہیں، اِس لئے دونوں ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنے اختلافات کا حل تشدد سے نہیں، سفارت کاری سے نکالیں، اگر دونوں مْلک اِس جانب پیشرفت کرتے رہے، تو اس سے خطے میں استحکام آئے گا۔ اْڑی واقعہ کے بارے میں سرتاج عزیز نے بالکل درست نشاندہی کر دی ہے کہ اِس واقعہ کا نہ تو پاکستان کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی کشمیریوں کو۔ اِس وقت بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم و ستم روا رکھ رہا ہے، اس پر پوری دْنیا میں اظہارِ افسوس کیا جا رہا ہے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھی جب وزیراعظم نواز شریف نے ان مظالم کے بارے میں تصویریں دکھائیں تو وہ رنجیدہ ہو گئے۔ ایک ایسے واقعے میں جب پوری دْنیا کی نگاہیں کشمیر میں فورسز کے ظالمانہ رویوں پر مرکوز ہیں، اس مرکزِ نگاہ کو ہٹانا آخر کس کے مفاد میں ہے؟یہ بھارت کے بزرجمہروں کے سوچنے کی بات ہے۔

بھارت نے پوری کوشش کی ہے کہ اس کی فورسز کشمیر میں جو کارروائیاں کر رہی ہیں، دْنیا اِدھر متوجہ نہ ہو۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی ہے، اس کے باوجود یہ اطلاعات باہر کی دْنیا کو مل رہی ہیں اور اِس طرح کشمیریوں کے لئے ہمدردی کے جذبات پوری دْنیا میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اْڑی کا واقعہ اِن مظالم سے توجہ ہٹانے کا باعث بن سکتا تھا، اِس لئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کن عناصر کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ نان سٹیٹ ایکٹرز بھی ہیں تو بھی یہ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں، جو کشمیریوں کے دشمن اور بھارت کے ہمدرد ہوں، ایسے میں سرتاج عزیز کی تجویز بہت ہی بروقت ہے۔انہوں نے یہ تجویز بی بی سی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے پیش کی ہے،لیکن بہتر ہے سفارتی چینل سے بھی یہ تجویز بھارت کو بھیج دی جائے تاکہ اْس کا ردعمل بھی سامنے آ سکے۔اگر بھارت تحقیقات میں واقعتا دلچسپی رکھتا ہے تو اسے یہ تجویز مان کر بات آگے بڑھانی چاہئے۔

India

India

غیر جانبدارانہ تفتیش کے نتیجے میں یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ اس واقعہ میں کون لوگ ملوث تھے،لیکن بظاہر حالات ایسے نہیں لگتے کہ بھارتی حکومت کسی معقول تجویز پر غور کے لئے تیار ہو،کیونکہ اْس کے پیشِ نظر تو پاکستان کو بدنام کرنا تھا،اِس لئے اس نے کسی قسم کی تحقیقات سے پہلے ہی پاکستان پر الزام دھر دیا۔ غالباً یہ بھی بھارتی حکام کے پیشِ نظر تھا کہ شاید بھارت کی اس پروپیگنڈہ مہم سے گھبرا کر پاکستان کے وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے آنکھیں بند کر لیں گے اور اپنی تقریر میں ان کا تذکرہ نہیں کریں گے۔ اب یہ تو ہو چکا اور بھارتی میڈیا کے یہ ”مشورے” بھی سامنے آ گئے کہ ”پاکستان کو سبق سکھا دیا جائے”۔۔۔ لیکن اگر بھارت واقعی درست نتیجے پر پہنچنا چاہتا ہے تو پھر تحقیقات کی تجویز قبول کر کے اِس سلسلے میں قدم آگے بڑھانا چاہئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ دراصل اس واقعہ میں کون لوگ ملوث تھے اور اْن کے مقاصد کیا تھے بھارت کے ایک سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے بھی کہا ہے کہ جذباتی فیصلوں کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

نٹور سنگھ کیریئر ڈپلومیٹ تھے اور اپنی سروس کے دوران پاکستان میں ہائی کمشنر رہ چکے ہیں اور پاکستان کے کلچر اور عوام سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت کو درست مشورہ دیا ہے کہ جنگی جنون سے گریز کیا جائے۔ویسے تو نریندر مودی نے کیرالا میں جو تقریر کی اْس میں چند لمحوں کے لئے انہوں نے جذباتیت کو چھوڑ کر یہ اچھی تجویز پیش کر دی تھی کہ بھارت اور پاکستان مل کر غربت کا مقابلہ کریں، لیکن یہ مقابلہ تو تبھی ہو گا،جب بھارت جنگ بازی کے سحر سے نکلے گا۔ دونوں ممالک میں کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لیکن جس طرح کی غربت کا مشاہدہ بھارت کے ممبئی جیسے کاسموپولیٹن شہروں میں کیا جا سکتا ہے، شاید ہی دْنیا کے کسی مْلک میں ایسا ہو۔

انسانیت کی توہین کرنے و الے ان مناظر کی انسان تاب نہیں لا سکتا، جہاں انسان فٹ پاتھوں پر پیدا ہوتے اور ساری عمر چھت کے بغیرگزار دیتے ہیں۔ بھارت میں 80فیصد لوگوں کو ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں،جبکہ وہ جنگجوئی کے لئے فرانس سے اربوں ڈالر کے رافیل طیارے خریدنے کا آرڈر دے رہا ہے۔ بھارت دْنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔ اس اسلحے پر خرچ ہونے والی رقم سے لوگوں کی غربت کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی، لیکن نریندر مودی پر تو پاکستان کو تنہا کرنے کا جنون سوار ہے۔ وہ اگر واقعی غربت سے لڑنے اور اِس سلسلے میں پاکستان کے تعاون کے خواہش مند ہیں تو پھر اس کا عملی ثبوت بھی دیں اور الزام تراشی کی روش چھوڑ کر پہلے یہ تو معلوم کر لیں کہ اْڑی کا واقعہ آخر ہوا کیوں تھا۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی