تحریر : خالد زاہد سیاست عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کی جاتی ہے، عوام کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے کی جاتی ہے، عوام کی بھوک پیاس کے سدِباب کیلئے کی جاتی ہے، معاشرتی ضابطہ اخلاق مرتب دینے کیلئے کی جاتی ہے، معاشرے میں موجود اقدار کو دوام بخشنے کیلئے کی جاتی ہے، معاشرے میں اعتدال اور ہم اہنگی کے فروغ کیلئے کی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ناانصافی سے نجات اور انصاف کی بھرپور فراہمی اور بالادستی کےلئے کی جاتی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے سیاسی ماحول کاجائزہ لیں تو پتہ چلےگا کے ان ممالک کے سیاست دانوں کی سیاست ملکی استحکام کی صورت میں نظر آتی ہے اور اس کے ثمرات عوام تک پہنچتے ہیں، جسکی بدولت عوامی زندگی معمول کے مطابق گزاری جاتی ہے۔ عوام قابل ترین اور مخلص اشخاص کو ووٹ جیسی قیمتی شے دے کر منتخب کرا کے اعوان میں بطور اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں اور انکا اس یقین کے ساتھ کے منتخب شدہ نمائندہ معاشرے میں بہتری کیلئے کام کرے یہ ملک کی معیشت مستحکم کرنے کیلئے کام کرے گا، یہ ہماری زندگیوں سے مسائل کا قلع قمع کرے گا اور ہماری زندگیاں آسان بنائے گا۔
ہمیں پڑھایا کچھ جاتا ہے اور برتاؤ سے سمجھایا کچھ اور جاتا ہے۔ ہر فرد یہی کہتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ سچ بولو، کسی کو تنگ مت کرو، لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرو اور اسی طرح نیکی کی نصحیتیں مگر یہ تمام کی تمام نصحیتیں کسی ایسی تصویر کی مانند ہوتی ہیں جو دیکھائی تو بہت خوبصورت دیتی ہیں مگر حقیقت میں بلکل مختلف ہوتی ہیں اور نصحیت کرنے والے ان پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت رکھنے والا ہمارا پڑوسی ملک کی سیاست کا ڈھنگ ہی نرالا ہے یہ عرصہ دراز سے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر ملکی سیاست کر رہے ہیں۔ آج جب میڈیا اتنی ترقی کر چکا ہے تو کچھ بھی چھپانا ممکن نہیں رہا آج کسی بھی خبر کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں بہت ہی قلیل وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن بھارت سفاکیت کی تمام حدیں پار کرچکا ہے، اخلاقیات کو تو پہلے ہی تار تار کر چکا، ساری دنیا سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتی مظالم دیکھ رہی ہے مگر پھر بھی بھارت کو کسی قسم کے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑھ رہا ہے۔ ہم اس لمحہ فکریہ پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کے دنیا جہان کے سیاستدان کشمیر کو لے کر بھارت کی بازپرس کرنے سے گریزاں ہیں۔ بھارتیوں کیلئے ایک گائے کا ذبح کرنا اور اسکا خون بہانہ اتنا بڑا مسلئہ ہے کے وہ اس ذبح کی گئی گائے سے کہیں زیادہ مسلمانوں کا بہا دیتے ہیں ان کے نزدیک انسانیت کے قتل کی کوئی اہمیت نہیں انسانوں کے خون کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہر روز کشمیرکی وادی میں بھارتی درندے اپنے ظلم اور بربریت کی بدولت کسی گھر کا چراغ گل کردیتے ہیں، کسی کی عزت پامال کردیتے ہیں، کسی کی گود اجاڑ دیتے ہیں۔ یہ ایسے بے حس ظالم ہیں جو نا مرد عورت میں تمیز کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو معصوم بچوں اور بوڑھوں میں فرق نظر آتا ہے۔ ان سفاک درندوں نے وادی کی سنگلاخ زمین میں جو کچھ بویا ہے اب اس فصل کی تیاری کا وقت آگیا ہے۔ اب کشمیری اپنی آزادی کیلئے بہت منظم طریقے سے پر عزم دیکھائی دیتے ہیں۔
Kashmir Violence
دوسری طرف غور طلب بات یہ کے اکیسویں صدی میں کشمیریوں کو پتھروں اور ڈنڈوں سے لڑتے دیکھ رہے ہیں بلکل ایسی ہی صورتحال فلسطین کی بھی دیکھائی دیتی ہے۔ ان دونوں کے خلاف دنیا کا جدید ترین اسلحہ سے لیس منظم افواج ہیں جو حق کی آواز کو دبانے میں پچھلی کئی دہائیوں سے بر سرِ پیکار ہیں۔
آج کے اخبار میں ایک انتہائی مضحکہ خیز خبر چھپی ہے جس میں ہمارے پڑوسی ملک کے وزیرِداخلہ محترم جناب راج ناتھ فرمارہے ہیں کے “پاکستان دہشت گرد ریاست ہے”، یعنی دہشت گردوں کو بھی کسی کو دہشت گرد کہنے کا معقع مل گیا۔ ہمسائے ملک کے وزیرِداخلہ جو اپنے ملک کے داخلی امور ٹھیک کرنے میں تو مکمل ناکام رہے ہیں تو حسبِ معمول اور حسبِ عادت الزام تراشیوں کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔
ہم پر اس الزام کے لئے جو منصوبہ بندی کی گئی کشمیر میں ہونے والے حالیہ مظالم سے بین الاقوامی میڈیا اور اربابِ اختیار کا دھیان ہٹانے کیلئے “اڑی” کا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ اس ڈرامے کا مقصداقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کے موقف کو کمزور کرنے کی ایک انتہائی گھٹیا اور ناکام کوشش ہے۔ دوسری طرف دنیا کی بہترین اور صفحہ اول کی بہترین پیشورانہ امور سے لیس پاکستانی افواج کو بھی للکارا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی فوج کو للکارتے ہوئے انکی زبانیں بھی لڑکھڑائی ہونگی اور بہت محتاط طریقے سے ایسا بیان دیا گیا ہوگا اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ بیان صرف تحریری ہی ہو کیونکہ بزدل دشمن میں اتنی جرات ہے ہی نہیں کے اسکی زبان شیر دل پاکستانی فوج کو للکار سکے۔
ہم تو عرصہ دراز سے حالتِ جنگ میں ہیں ہمارے لئے ایسے بیانات کی اہمیت “گیدڑ بھپکیوں سے زیادہ نہیں”۔ بھارتی سیاستدان اور انکی فوج کے افسران یہ جان لیں کے دراصل ” پاکستان کا بچہ بچہ افواجِ پاکستان ہے”۔ اکسیویں صدی میں ہمارا پڑوسی ایسی بچکانا سازشیں کر رہا ہے جیسے “کبوتر کو آنکھیں بند کر کے لگتا ہے کے بلی اسے نہیں دیکھ رہی”۔ آج ساری دنیا میں بھارتی سیاست کا گھنوونا کھیل فاش ہو چکا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے خون بھانے پر اپنی سیاست کرتے ہیں۔ کبھی یہ گھنؤنا کھیل گجرات میں کھیلتے ہیں تو کبھی کسی اور شہر میں۔ بھارتیوں کی بنیاد پرستی یا انتہا پسندی دنیا کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی ہے۔ کیونکہ ساری دنیا کے سامنے لگ بھک ڈیڑھ ارب مسلمان دہشت گرد قرار پا چکے ہیں کسی کو باضابطہ سند دے کر دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے تو کسی ترچھی نظروں سے دیکھ اور کسی کو دنیا کے کسی بھی ہوائی اڈے پر گھنٹوں انتظار کرواکر دہشت گرد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
Kashmir Issue
دوسری طرف دنیا میں جمہوریت اور سیکولر ریاست کہلوانے والا ملک اپنی فوج کے ذریعے نہتے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے کسی کو دیکھائی نہیں دے رہا یہاں تک کے ہم پاکستانی بھی بھارتی میڈیا کی رنگینیوں میں ایسے دھت ہوئے بیٹھے ہیں کے زبانیں تو زبانیں سماجی میڈیا پر بھی کسی قسم کا استحصال کرنے سے قاصر ہیں۔ خدا کے لئے پچھلے 70 دنوں سے کشمیر میں کہرام مچاہوا ہے ہر طرف صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے مگر پھر بھی ہمارے گھروں سے بھارتی ڈراموں، فلموں اور گانوں کی آوازیں سنائی دی جارہی ہیں اور ہم ساتھ ساتھ یہ دعوا بھی کئے جاتے ہیں کے “کشمیری ہمارے بھائی ہیں” کیا بھائی کے گھر میت ہو اور آپ اپنے گھر میں ناچ گانا کروگے، نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ایسا کرنے والے کیساتھ کبھی بھی اچھا سلوک نہیں کرو گے۔
ہمارے حکمرانوں اور دیگر تمام سیاستدانوں کو چاہئے کے وہ اپنے چہروں سے اس وقت تک کیلئے “مسکراہٹیں” ہٹا دیں جب تک کشمیر کا معاملہ حل نہیں ہوجاتا چاہے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق یا پھر بھارت کے جنگی جنون کے مطابق۔ اب یہ آگ اور خون کا کھیل ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اب کشمیریوں کی قربانیوں کا صلہ ملنے کا وقت آگیا ہے۔ پچاس فیصد بھارتی اپنی حکومت سے اختلاف کر رہے ہیں مگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ سچ پوچھئے تو اب کشمیر کا مسلئہ جیسے بھی حل کرنا ہے کر لیں تاکہ یہ روز روز کے مرنے سے نجات مل جائے اور کشمیریوں کو ان کا حق مل جائے۔
کشمیر کے مسلئہ کا حل خطے میں امن و امان کا ضامن ہے اور بھارت اپنی سازشوں سے خطے کے امن کو برباد رکھنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے پاکستان ان ہی الجھنوں میں الجھاء رہے اور وہ اپنا کام کرتا چلا جائے۔ پہلے صرف کشمیر تھا اب تو بلوچستان اور کراچی میں بھی اپنی کاروائیاں کر رہا ہے جس کا مقصد تجارتی رہداری منصوبے کو کسی بھی حال میں نقصان پہنچاناہے۔ اس راہداری کی بدولت پاکستان میں خوشحالی کا راستہ کھلنے والا ہے اور یہی وہ بات ہے جس نے ہمارے دشمنوں کی صرف راتوں کی نیندیں ہی نہیں بلکہ دن کا چین بھی حرام کر رکھا ہے۔ فتح حق کی ہی ہوا کرتی ہے اور وہ دن بہت قریب دیکھائی دے رہا ہے۔