اللہ کریم جل شانہ نے جب تخلیق آدم کا ارادہ ظاہر فرمایا تو فرشتوں سے مشاورت فرمائی فرمایا میں زمین پر اپنا خلیفہ بنارہا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ مالک کیا ہم تیری حمد وثناء کے لیے کیا کم ہیں وہ تو زمین پر خون بہائے گا اور فساد کرے گا اللہ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے پھر تخلیق آدم علیہ السلام فرماکر فرشتوں کو حکم دیا کہ جب میں اس میں اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے سامنے سر بسجود ہوجانا پھر سوائے ابلیس کے تمام فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا اور ابلیس معلم الملکوت ہونے کے باوجود راندہ درگاہ قرار پایا اور تمام تر عبادتوں ریاضتوں پر پانی پھر گیا اس ساری تفصیل لکھنے کا مقصد مقام آدمیت بتانا ہے کہ اگر انسان ہو تو مسجود ملائکہ ہے حضرت علی نے انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے عام ،عوام اور خاص عام میں بنی نوع انسان بلا تفریق مذہب آتے ہیں عوام میں مسلمان اور خواص میں اللہ کے وہ برگزیدہ بندے جو ظاہری حیات کے بعد بھی مسجود ملائکہ کے مقام پر فائض ہیں انہی خواص میں سے برصغیر کے ایک نامور صوفی شاعر عالم تصوف کے شہنشاہ اور زہد و تقویٰ میں مقام انبیاء تک رسائی حاصل کرنے والا نام فرید الدین مسعود گنج شکر کا نام سر فہرست آتا ہے۔
آپکا اسم گرامی مسعود لقب گنج شکر اور مشہور نام بابا فرید ہے آپکا 776 واں سالانہ عرس مبارک 25 ذالحج سے یوم عاشور یعنی10 محرم الحرام تک جاری ہے اپنے قارئین کرام کے ذوق کی نظر کرتے ہوئے آپکی سیرت سے مختصر سا یہ مضمون ترتیب دیا ہے جس سے اپنے نام کی نسبت کا قرض اور اس شہنشاہء ولایت کی بارگاہ میں ہدیہ تبریک پیش کرنا ہے آپکی پیدائش خانیوال کے قریب قصبہ کھوتوال میں ہوئی والد وقت کے مایہ ناز صوفی ء کامل تھے آپ کے بچپنے میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا آپکی والدہ ماجدہ بی بی قرسم خاتون نے آپکو ابتدائی دینی تعلیم گھر میں دی اور پھر ملتان میں واقع حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی ( ہمارے خارجہ امور کے وزیر شاہ محمود قریشی کے جد امجد ) کے مدرسہ میں دینی تعلیم کے لیے داخل کروا دیا آپ نے بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ فرمانے کے ساتھ ساتھ تمام رموز و اسرار سمجھ لیے آپ صرف نحو کے طالب علموں میں شامل تھے کہ ایک دن عطائے رسول خواجہ غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے خلیفہ خاص خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مدرسہ میں جلوہ گر ہوئے تمام طلبہ و اساتذہ نے انہیں سلام پیش کیا بابافرید مسجد میں بیٹھے اپنا سبق یاد کررہے تھے کہ خواجہ صاحب خود تشریف لائے اور بابا فرید سے مخاطب ہوکر فرمایا فرید کیا پڑھ رہے ہو اس طرح اچانک ایک ولی کامل کی نظر سے آپ کے قلب کی دھڑکن اس حد تک بڑھ گئی کہ آپ نے بمشکل جواب دیا کہ جی میں نافع پڑھ رہا ہوں خواجہ صاحب مسکرا دیے اور فرمایا کہ میرا اللہ ایسا ہی کرے کہ تیرے لیے تمام علم ہی نافع ہو آپ فرط جذبات سے قدموں میں گر گئے اور عرض کی کہ میں عالم تو نہیں مگر میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ کوئی عام شخص نہیں بلکہ اللہ کے برگزیدہ اور خاص ہیں تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ فرید تم نے میرے بعد سلسلہ چشت اہل بہشت کو سنبھالنا ہے مگر منزل ابھی بہت دور ہے اسکے بعد آپ عراق بغداد نیشا پور تک حصول علم کے لیے گئے اور علوم دینی و دنیاوی سے بہرہ مند ہوکر واپس کھوتوال تشریف لائے تو جسم انتہائی نحیف اور دل بے قرار تھا ماں کے استفسار پر آپ نے خواجہ قطب والا واقعہ سنا دیا تو آپکی والدہ نے کچھ دن گھر آرام کرنے کے بعد دہلی جاکر خواجہ صاحب کی خدمت میں پیش ہونے کا حکم دیا آپ نے عرض کی کہ اماں جان وہ میرا بچپن تھا اب وہ مجھے پہچانیں گے بھی یا نہیں تو اماں حضور نے فرمایا تمہیں انکی نگاہ کا علم نہیں جانا تیرا کام ہے اگلا کام اسکا ہے آپ کھوتوال سے دہلی تک پیدل سفر فرمایا اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ڈیرہ پر پہنچے جاکر کیا دیکھا کہ شہنشاہ ہند سلطان التمش بھی آپکے حجرہ کے باہر ہاتھ باندھے کھڑا ہے آپ نے دل میں سوچا یہاں مجھے کون پہچانے گا۔
بس ابھی چند منٹ ہی گزرے ہونگے کہ ایک خادم نے آپکو پیغام دیا کہ اندر خواجہ صاحب آپکو ملنے کے لیے بے تاب ہیں آپ کمرہ میں داخل ہوئے تھے کہ خواجہ صاحب نے بے ساختہ فرمایا وہ میرا بابافرید آگیا حالانکہ عمر میں آپ خواجہ صاحب سے کہیں کم تھے مگر بابافرید سب سے پہلے آپکو بابافرید کے نام سے آپکے پیر و مرشد خواجہ بختیار کاکی نے ہی پکارا چند یوم کے اندر ہی جناب نے حضرت بابافرید کو دست بیعت فرمایا اور مختلف قسم کے چلوّں کا سبق دے کر تزکیہ نفس کے کام پر لگا دیا آپ کے زہد و عبادت کے شہرے آج بھی زبان زد عام ہیں آپکے مرشد نے آپکو حکم دیا کہ چلہ معکوس کرکے پھر چالیس دن کا روزہ رکھو اور افطار اس چیز سے کرنا جو اللہ عطا فرمائے آپ خانقاہ سے دور ایک ریت کے ٹیلے پر براجمان ہوئے اور چالیس دن کا روزہ رکھا شام ہوئی سورج غروب ہونے کو آیا تو ایک آدمی طشت میں طرح طرح کے کھانے لے کر حضرت بابافرید کی بارگاہ پیش ہوا آپ نے افطار فرمایا تو اسی وقت آپکی حالت غیر ہوگئی قے ہونا شروع ہوئی تو آپکے پیر و مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی تشریف لائے اور غصہ کے عالم میں فرمایا کہ فرید ہم نے تمھیں اللہ کی طرف سے آنے والی چیز سے افطاری کا حکم دیا تھا تم نے ایک اجنبی شخص کا لایا ہوا کھانا کیوں لے لیا جانتے ہو وہ شخص دہلی کا سب سے بڑا شراب فروش ہے اسکا مال حرام ہے آپ تائب ہوئے اور مرشد کے حکم سے دوبارہ روزہ رکھ لیا پورے چالیس یوم کا روزہ رکھنے پر آپ انتہائی نحیف ہو گئے اور جب وقت افطار قریب آیا تو آپ اضطراب کے عالم میں تھے کہ موذن نے اذان مغرب پڑھنا شروع کی آپ نے زمین سے کچھ ریت کنکریاں وغیرہ اٹھا کر منہ میں ڈال لیں جو آپ کے دہن میں جاتے ہی شکر میں تبدیل ہو گئیں اسی نسبت سے آپکو شکر گنج کہا جاتا ہے شکر سے منسلک آپکی بہت سی کرامات آپکی سیرت میں ملتی ہیں مگر اس مختصر کالم میں آپکی مکمل سیرت پاک کا احاطہ ممکن نہیں ۔چلہ معکوس اور مسلسل روزہ داری سے آپکو اتنی بدنی کمزوری ہو گئی کہ آپکے پیر و مرشد نے آپ کو لکڑی کے ایک تابوت نما صندوق میں رکھ دیا اسی اثناء میں آپ کے دادا مرشد خواجہ معین الدین چشتی اجمیری خانقاہ پر تشریف لائے تو سارے مریدین آداب بجا لائے خواجہ معین نے خواجہ قطب سے فرمایا کہ وہ شہباز کہاں ہے جسے تم بابا فرید کہتے ہو خواجہ قطب نے عرض کی کہ وہ نحیف ہے اور ضعف کی وجہ سے میں نے اسے صندوق میں رکھا ہے۔
آپ یعنی خواجہ معین نے فرمایا کہ شہباز کے پر نہیں کاٹا کرتے اسے ہمارے سامنے لائو مریدوں نے آپکو سہارا دے کر غریب نواز کے سامنے پیش کردیا آپ نے خواجہ معین الدین کے سامنے دو زانو ہو کر قدم بوسی کرنا چاہی مگر نقاہت کی وجہ سے گر گئے یہ دیکھ کر خواجہ معین الدین نے آپکو دائیں طرف سے خود اٹھایا اور بائیں طرف سے خواجہ قطب کو حکم دیا دونوں خواجگان نے آپکو اپنے بازوئوں میں لے رکھا تھا اور آپ کے آنسو نہ رک رہے تھے خواجہ معین نے خواجہ قطب کو حکم دیا کہ اپنی دستار لائو اور اپنے ہاتھ سے بابافرید کے سرپہ سجا دی پھر اپنی دستار بھی اتار کر گنج شکر کے سر پہ باندھتے ہوئے فرمایا کہ یہ دستار مولا حسن پاک سے چلتی ہوئی میرے تک پہنچی اور رسول خدا جناب محمد رسول اللہ ۖ کا حکم تھا کہ یہ فریدالدین مسعود تک پہنچے آج ہم نے تمھاری امانت تمھارے سپرد کردی اور سینے سے لگا کر فیض تصوف سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ فرید تم قطب کے درجہ پر ہو اور تا قیامت دنیا حق فرید یا فرید کے نعرے مارتی رہے گی اسی خانقاہ میں کچھ دن آرام کے بعد جب آپ کی طبعیت سنبھل گئی تو آپ کے پیر و مرشد خواجہ بختیار کاکی نے آپکو اجودھن موجودہ نام پاک پتن جانے کا حکم دیا اجودھن اس وقت کفر وشرک کا گڑھ تھا یہاں کی وٹو برادری جو کہ اس وقت غیر مسلم تھی اور پاکھنڈی جادوگروں کے چنگل میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی آپ نے اپنے حسن اخلاق سے انہیں مشرف بہ اسلام کیا اور دریائے ستلج کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے اجودھن پتن کہلانے لگا اور پھر بابافرید کی نسبت سے لوگوں نے پاک لوگوں والا پتن اور پھر آہستہ آہستہ پاکپتن کے نام سے مشہور ہوگیا۔
آپ کی کرامات اور سیرت کو مکمل لکھا جائے تو ایک ضغیم کتاب بنتی ہے یہاں اختصار کے ساتھ لکھا گیا ہے آپ کے مریدین میں وقت کے جّید علماء کرام مولانا جمال الدین ہانسوی مولانا بدر الدین اسحاق حضرت نظام الدین محبوب الہی جیسے جلیل القدر لوگ شامل ہیں آپ نے اسی ڈگر پر اپنے مریدین کی تربیت فرمائی امر ربی سے آپ نے 5 محرم الحرام کو اس دار فانی کو الوداع کہا آپ کی عبادات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وقت نزع استغراق کے عالم میں آپ ہوش میں آئے تو مریدین سے پوچھا کہ کیا میں نے عشاء کی نماز ادا کی ہے مریدین نے عرض کی کہ حضور آپ نے ہمارے ساتھ ہی پڑھی ہے پھر بھی آپ نے وضو فرما کر عشاء کی نماز ادا فرمائی اور ایسا متعدد بار ہوا تا وقتیکہ آپکی روح قفص عنصری سے پرواز نہ کر گئی آپ کے وصال کے وقت آپکے محبوب خلیفہ نظام الدین دہلی میں تھے جو اگلے دن پاکپتن پہنچے اور دیوانہ وار اپنے مرشد کا طواف کرنا شروع کر دیا ایک جگہ آپ عالم استغراق کی حالت میں بیٹھ گئے اور جب ہوش آیا تو اللہ کا شکر کرنے بعد فرمایا کہ میرے مرشد نے مجھے فرمایا ہے کہ نظام جس جگہ تم بیٹھے ہو یہی جنت کا دروازہ ہے۔
یہی نجات کا دروازہ ہے آپ کے مزار پر انوار کا شرقی دروازہ نوری دروازہ کہلاتا ہے جو پورا سال زائرین کے لیے کھلا رہتا ہے اور جنوبی دروازہ باب جنت کے نام سے موسوم ہے جو ہر سال 5 محرم الحرام سے شب عاشورہ تک کھلا رہتا ہے اسکے بعد دربار شریف کو غسل دے کر چالیس دن کے لیے بند کردیا جاتا ہے خاندان چشت سے ملنے والی روایات کے مطابق دربار شریف کو بند رکھنا شہداء کربلا کے احترام میں کیا جاتا ہے اور چہلم جناب امام عالی مقام جناب حسین کے بعد نوری دروازہ زائرین کے لیے کھول دیا جاتا ہے باب جنت جن پانچ راتوں میں کھلا ہوتا ہے اس میں سے لاکھوں فرزندان توحید گزرتے ہیں ضلعی انتظامیہ اور آپ کی اولاد کی طرف سے زائرین کے لیے تمام تر سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں سے اشلوک فریدی ایک ایسی کتاب ہے جس میں آپ نے توحید و رسالت کی تبلیغ کے ساتھ انسانیت سے پیار کرنے اور دکھ سکھ بانٹنے کا حکم دیا ہے اقبال صاحب نے انہیں لوگوں کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہا ہے کہ ،،،نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہے تو دیکھ ان کو ،،،ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں ،،،اللہ کریم ہم سب کو بابافرید کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ان نفوس قدسیہ کے فیوض وبرکات سے نوازتا رہے آمین