تحریر : قادر خان یوسف زئی امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو برطرف کرتے ہوئے ریاستہائے متحدہ امریکا کے لئے 70ویں اسٹیٹ سیکرٹری کے طور پر سخت گیر موقف کے حامل سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپببو کو نامزد کردیا ہے۔ سبکدوش وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن یکم فروری 2017کو مقرر ہوئے تھے۔ جس وقت ریکس ٹیلرسن نے عہدہ سنبھالا تو ڈیمو کرٹیک اراکین نے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیل کا کاروبار کرنے والے ریکس ٹیلرسن امریکی صدر کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرسکیں گے ۔ تاہم ان کے خدشات غلط ثابت ہوئے اور ری پبلکن ارکان کی اکثریت رکھنے والے سبکدوش ریکس ٹیلرسن کے ساتھ امریکی صدر کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے اور کئی بار ان کے مستعفی ہونے کی خبریں منظر عام پر آئی لیکن بعد ازاں ان خبروں کی تردید کر دی گئی ۔2017میں وزارت خارجہ کے حکام نے ریکس کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت بھی کی تھی۔ تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے13 مارچ کو با قاعدہ سبکدوش کر دیا گیا۔
مائیک پومپببونئے امریکی خارجہ کی حیثیت سے 31مارچ کو اپنے نئے عہدے کے ذمے داریاں سنبھالیں گے ۔امریکا کے نامزد نئے وزیر خارجہ صدر ٹرمپ کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے حامی ہونے کے علاوہ عالمی امور پر’واٹر بورڈنگ’ مائنڈ کے ساتھ قومی سلامتی کے ادارے’ این ایس اے’ کے طریقہ جاسوسی کو محدود رکھنے کی مخالفت کرتے ہیں۔امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ ہونے کی حیثیت مائیک پومپیوپاکستان پر افغانستان پالیسی کے حوالے سے سخت گیر بیانات وپالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے توقع ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی ہمنوائی میں نئے وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے میں پیش پیش رہیں گے۔ مائیک پومپیوکا بھارت کی جانب جانبدارنہ حد تک جھکائو بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جہاں پاکستان کے مخالف اور بھارت کے ہمنوا ہیں تو دوسری جانب ان کی متنازع شخصیت سے خود امریکی مسلم عوام بھی خوش نہیں ہیں ۔ مائیک پومپیو کو امریکا میں مسلمانوں کی تنظیم مسلم پبلک افیئر کونسل متنازع ترین شخص قرار دے چکی ہے۔ مسلم تنظیم نے مائیک پومپیو کے وزیر خارجہ کے عہدے پر نامزدگی کو امریکی عوام کا امریکی حکومت پر اعتماد کم ہونے کے تحفظات ظاہر کئے ہیں۔ سی آئی اے کے سر براہ مائیک پومپیونے ایران کو بھی سخت تنبیہ کئے جانے والے مراسلے بھجوائے تھے ۔ جس میں جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں ایران کے کردار پر سخت موقف دیا گیا تھا۔جبکہ ایران نے گزشتہ ہفتوں حکومت مخالف مظاہروں کا الزام امریکا پر عائد کیا تھا جس کی مائیک پومپیو نے تردید کی تھی ۔ حالاں کہ مائیک پومپیوکا سی آئی اے کے سربراہ ہونے کی حیثیت یہ اعلان سامنے آچکا تھا کہ،تہران کے خلاف امریکا نے نئی حکمت عملی اختیار کرلی ہے۔اسلام آباد کے خلاف بھی امریکی وزیر خارجہ کے بیانات اس قدر حوصلہ افزا نہیں رہے کہ گمان کیا جاسکے کہ امریکا اپنی سخت گیر جارحانہ پالیسیوں میں تبدیلی لا سکتا ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے ۔ گزشتہ ہفتے امریکی نائب صدر مائیک پینس نے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے نجی دورے میں ملاقات کے دوران ڈو مور کے مطالبے کو دوہراتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک ، افغان طالبان سمیت دیگر شدت پسندوں کے خاتمے پر توجہ مرکوز رکھنے کا مطالبہ دوہرایا تھا۔ امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر ایچ آر مک ماسٹر بھی پاکستان پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں ۔ امریکی صدر کے انتخابات کے موقع پر روسی مداخلت کے الزامات پر تحقیقات کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے عتاب کا نشانہ بن گئے اور انہیں صدر ٹرمپ کی جانب سے سخت تنقید کے بعدآج 23مارچ کو قومی سلامتی مشیر کے عہدے سے سبکدوش کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سابق سفیر ، جان بولٹن کو مقرر کردیا ہے۔ جو 9اپریل کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ امریکی صدر کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے سخت گیر رویئے کے حامل ایچ آر مک ماسٹر کو فارغ کئے جانا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ امریکی صدر اپنے عزائم و رویوں کے سامنے آنے والے کسی بھی عہدے دار کو خاطر میں نہیں لاتے۔واضح رہے کہ امریکی صدر کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ بھی امریکی انتخابات میں روسی مداخلت پر پوچھ گچھ کی وجہ سے امریکی صدر کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہوئی تھیں۔امریکی صدر کے سفید قوم پرستوں کے پُر تشدد مظاہروں کے ذمے دار سمجھنے والے اسٹیو بینن کو بھی 2016میں برطرف کردیا گیا تھا۔امریکی صدر محض دس دن میڈیا چیف رہنے والے انٹونی سکار اموچی (موج) سے بھی ناخوش تھے اور انہیں چیف آف اسٹاف جان کیلی نے برطرف کر دیا تھا۔
امریکی صدر کے رویئے سے نالاں مالیاتی معاملات میں اختلاف رائے رکھنے والے امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر ایم شائوب جونیئر بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے تھے۔امریکی انتظامیہ کے اکھاڑپچھاڑمیں وائٹ ہاوس کے چیف آف اسٹاف رائنس پربیس بھی مواصلات کے سابق سربراہ انٹونی سکارا موچی کی مخالفت کی وجہ سے مستعفی ہوگئے تھے۔امریکی صدر سے اختلاف رکھنے والے وائٹ ہائوس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر نے بھی احتجاجاََ استعفیٰ دیا تھا ۔ امریکی صدر اپنے رویوں کی سخت گیری کے سبب انتظامیہ میں رد و بدل کرنے کی مسلسل روش میں مبتلا ہیں ۔ انہوں نے وائٹ ہائوس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیویک کو بھی اس لئے برطرف کردیا تھا کیونکہ وہ امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کا درست دفاع نہیں کرسکے تھے۔روس کی جانب سے امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزامات سے پریشان صدر ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے یف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو برطرف کرچکے ہیں ۔ ٹرمپ کو خدشہ تھا کہ جیمز کومی ، ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ملوث ہونے کے شواہد تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔صدر ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن بھی اپنے عہدے سے اسی لئے مستعفی ہوئے کہ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ اب انہی معاملات میں قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر مک ماسٹر بھی فارغ کردیئے گئے ہیں۔امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے بھی امریکی صدر سے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔گو کہ وزیر دفاع جیمز میٹس ان اطلاعات کی سختی سے تردید کرچکے ہیں۔ تاہم ایسے ہی معاملات ریکس ٹیلرسن کے حوالے سے بھی عالمی ذرائع ابلاغ میں آئے تھے جس کی وہ مسلسل تردید کرتے رہے تھے لیکن بالاآخر امریکی صدر نے انہیں برطرف کرہی دیا۔امریکی صدر اہم اقدامات کے اعلانات ٹوئٹر پر کرنے کے عادی ہیں جس سے ان کی عجلت پسندی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
جنوبی ایشیائی پالیسی کے حوالے سے مائیک پومپیواپنے صدر ٹرمپ کے مکمل حامی و سخت گیر موقف رکھتے ہیں ۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ریکس ٹیلرسن کی جگہ مائیک پومپیوکی تقرری کو صدر ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا جارہا ہے۔اس بات کی توقع بھی ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکا کی پالیسی میں افغان طالبان سے کابل حکومت کے مذاکرات کے حوالے پیش رفت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے روایتی بیان سامنے آچکا ہے کہ ان کی قیادت کابل حکومت کے بجائے امریکی حکومت سے براہ راست مذاکرات کرے گی ۔ لیکن مائیک پومپیوجیسے متنازع مسلم دشمن وزیر خارجہ کی تقرری سے ظاہر ہورہاہے کہ امریکا خطے میں اپنے موجودگی کی جواز کو بڑھانے کے لئے تاویلات تلاش کررہا ہے۔ پاکستان خطے میں امن کے لئے اپنی خدمات اصولی و اخلاقی بنیادوں پر بار بار پیش کرچکا ہے۔ افغانستان میں امن کی خواہش پاکستان سے زیادہ شائد افغانستان سے بھی زیادہ ہے ۔ کیونکہ پاکستان اس وقت جس دور سے گذر رہا ہے اتنا نازک وقت ماضی میں کبھی بھی مملکت پر نہیں گذرا۔قیام پاکستان سے لیکر موجودہ حالات تک بھارت کی ریشہ دیوانیوں نے پاکستان کی سا لمیت کے خلاف سازشیں رچی ہیں ۔ جس کا نقصان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی پالیسیاں وقت کی مناسبت سے فرد واحد کی خواہشات کے تابع رہی جس کا فائدہ استعماری قوتوں نے اٹھایا ۔ فرد واحد ، عوام کو جوابدہ نہیں ہوتا ۔ آمر کو پارلیمنٹ یا کسی بھی ادارے کے سامنے اپنی پالیسیوں کی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے آمر اپنی پالیسیوں کو خود ساختہ تناظر میں دیکھتے ہوئے مستقبل بینی کا ادارک کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ کیونکہ آمر کے سامنے اپنے اقتدار کا تحفظ ہوتا ہے اس لئے اقتدار کے گرد گھومنے والی پالیسیاں خوش نما سیراب کے مضمرات سے پوری مملکت متاثر ہوجاتی ہے ۔ پاکستان سیاسی و غیر سیاسی کرداروں کے متنازعہ کرداروں کی وجہ سے بتدریج مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔
اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ صرف ایک متفقہ خارجہ پالیسی کا اپنانا ہے۔ اس کے لئے پاکستان کی سیاسی قوتوں کے ساتھ دیگر ریاستی اداروں کے اہم کرداروںکو بیٹھ کر ڈاکٹرئن مرتب کرنا ہوگی ۔ موجودہ حالات میں ہمیں پاکستان کے سیاسی اداروں کے بجائے عسکری ڈاکٹرئن کا کردار زیادہ نظر آتا ہے ۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے ساتھ روایتی دوست ممالک کے ساتھ مسلسل رابطوں کے سبب خارجہ پالیسیوں میں عسکری اداروں کا کردار نمایاں نظر آرہا ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان اس وقت جنگی حالات سے گذر رہا ہے ۔ بیک وقت پاکستان کو کئی محاذوں پر پراکسی وار میں ملک دشمن عناصر کے خلاف مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ان حالات میں تمام اداروں کا ایک صفحے پر آنا ناگزیر ہے۔ ہم امریکا کی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ امریکی صدر نے جہاں جنوبی ایشیائی پالیسی سمیت عالمی طور پر سخت گیر متنازع پالیسیوں کو لاگو کیا اور اپنی بات منوانے کے لئے ہر طرح کا دبائو استعمال کیا تو ان کے لئے مشاورت کے امور امریکا کے سب سے بڑے حساس ادارے نے انجام دیں۔ حساس اداروں کی مشاورت میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے برعکس حساس ادارے ملکی سا لمیت کے لئے کل وقتی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہیں ۔ ان کی ترجیحات میں ملکی دفاع کے لئے انٹیلی جنس شیئرنگ ایک اہم جُز کے طور پر اپنائی جاتی ہے۔
امریکا کے صدر نے سی آئی اے کے سربراہ کو وزیر خارجہ نامزد کرکے اسی نظریئے کو اپنایا کیونکہ سی آئی اے پوری دنیا میں اپنے نیٹ ورک کے ساتھ مسلسل متحرک ہے اور بار بار تبدیل ہونے والی سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں جاسوسی ادارہ دیگر ممالک کی پالیسیوں پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ امریکا کی دفاعی امور پر قائم سینیٹ کمیٹی ہو یا وائٹ ہائوس کو جاری کی جانے والی رپورٹ ، امریکا اپنی ایجنسی کی رپورٹس کی بنیاد پر اپنی پالیسیوں کو مرتب کرتا ہے اور اپنی ایجنسی کی رپورٹس پر بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے۔ سی آئی اے کے سربراہ انتہائی تجربہ کار اور امریکی فوج میں اہم ترین عہدے پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں ۔ مائیک پومپیوکے سربراہی میں پاک ۔افغان امور نہایت توجہ کے حامل رہے ہیں ۔ متعدد مواقع پر سخت بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی نامزد وزیر خارجہ کا رویہ پاکستان کے ساتھ معاوندانہ نہیں ہوگا ۔ امریکی وزیر خارجہ سی آئی اے کے سربراہ ہونے کے باعث پاک۔ افغان امور میں پاکستانی اداروں کے کردار سے کماحقہ واقف ہیں ۔ اس لئے ڈومور کے مطالبات میں کمی نہیں آئے گی۔ بلکہ مائیک پومپیو امریکی صدر کے جارحانہ بیانات و پالیسیوں پر مزید سخت گیر ثابت ہونگے ۔ وزیر اعظم پاکستان کے نجی دورہ امریکا میں ایک بار پھر نائب صدر و امرکی انتظامیہ کی جانب سے ڈومور کی گردان سنائی دی گئی۔
پاکستان چونکہ ایک دفاعی پوزیشن میں ہے او ر امریکا متعدد عالمی فورم میںپاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے ۔ جس سے ایک جانب پاکستان کو اپنے دفاعی معاملات میں مزید چوکنا ہونے کی ضرورت بڑھ گئی ہے تو دوسری جانب معاشی طور پر پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے مالیاتی معاملات میں مملکت کو بھی آنے والے وقت میں دشواری کا سامنا ہے۔ پاکستان پر سرحد کے دونوں جانب سے دبائو کے سبب بھی وطن ِ عزیز کو ملک دشمن عناصر کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے۔امریکا پاکستان سے اپنی مفاداتی جنگ میں غیر مشروط کردار ادا کرانے پر بضد ہے۔ امریکا ، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں پڑوسی ممالک کے کردار پر سنجیدہ نہیں ہے ۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جیسے امریکا کے مکمل آشیر باد کی وجہ سے ہی پڑوسی ممالک پاکستان میں دہشت گردی و سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ملکی اداروں کو کمزور کرنے کے لئے ایسے ناپسندہ عناصر کو اپنے مذموم منصوبوں کے لئے استعمال کرنا کوئی راز نہیں رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستانی ریاست کو اپنے خارجہ امور زمینی حقائق کے مطابق سر انجام دینے کے لئے ملکی و غیر ملکی امور پر ماہر و دسترس رکھنے والی شخصیت کی ضرورت ہے ۔ جس پر مملکت کے تمام اداروں کا اعتماد یکساں ہو۔ اس حوالے سے پاکستانی ریاست امریکا و کئی ممالک کی طرح اپنے خارجہ امور کے لئے حساس اداروں کی باقاعدہ آئینی خدمات حاصل کرسکتی ہے۔ ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں ایسے کئی خفیہ معاملات ہوتے ہیں جن کا قومی بیانیہ میں افشا ہونا قبل ازوقت ہوتا ہے ۔ملکی مفاد میں اہم قومی رازوں کو منکشف بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ حساس ادارے اس اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ملکی موجودہ سیاسی ماحول میں سیاسی کردار متنازعہ ہیں ۔ گو کہ ان کی مملکت کے ساتھ وفاداری کو مشکوک کسی صورت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ لیکن بد قسمتی سے ایسے کئی معاملات متواتر رونما ہو تے رہے ہیں کہ عوام اب اپنے سیاسی رہنمائوں پر یقین نہیں رکھنے میں تامل کرتی ہے۔
امریکا نے جس نظریئے کے تحت سی آئی اے کے سربراہ کو وزیر خارجہ نامزد کیا ہے ۔ اس نظریئے کے تحت پاکستان بھی عمل پیرا ہوسکتا ہے۔ ذاتی طور سمجھتا ہوں کہ اس سے اداروں کے درمیان موثر رابطوں میں بہتر نتائج بھی سامنے آئیں گے ۔ اداروں کے درمیان ٹکرائو و تصادم کی کوششوں کو بھی ناکامی کا سامنا ہوگا ۔ سب سے بڑھ کر لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ ہم زمینی حقائق کے پیش نظر امریکا کے مختلف پالیسیوں پر دبائو سے نکلنے کے لئے روایتی انداز سے ہٹ کر بھی کام کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو ممکنہ تحفظات ہوسکتے ہیں لیکن اس میں کوئی قباحت بھی معانع نہیں ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اعتماد کے حامل اداروں سے قابل شخصیات کو حساس محکموں میں آئینی طور پر مقرر کردیا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں موجود سیاسی شخصیات کے قابل ہونے میں بھی کوئی تردد نہیں لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ منتخب اراکین اسمبلی کے بجائے من پسند افراد کو حساس وزراتوں میں مشیر بنا کر مملکت کو نقصانات سے دوچار کرچکے ہیں۔ غیر مقبول پالیسیوں کے بنانے والوں کے احتساب کا کسی بھی حکومت میں تصور بھی نہیں ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم ایسی شخصیات کو مقرر کریں جو تمام ریاستی اداروں کے لئے قابل ِ قبول ہو۔
امریکا اپنی پالیسیوں کی حوالے سے واضح موقف رکھتا ہے ۔ امریکی انتظامیہ میں مسلسل ردوبدل و تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ امریکی صدر اپنے موقف کے حوالے سے کسی بھی قسم کی رعایت یا نرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور اپنے ناقدین کے خلاف سخت کاروائی کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ مجموعی طور پر امریکی صدر کے قریب ترین احبا ب میں اب تک12سے زائد اہم عہدے دار مستعفی یا برطرف کئے جاچکے ہیں ۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں امریکی رویہ تبدیلی کے رجحان کی جانب مثبت اشارہ نہیں دے رہا ۔ امریکا پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے ۔پاکستان پر معاشی دبائو کے حوالے سے ایف ٹی اے کی بلیک لسٹ میں پاکستان کا نام داخل کرنے کی کوشش سامنے آچکی ہے ۔ پاکستان تیزی کے ساتھ معاشی مسائل کا شکار ہورہا ہے ۔ مصنوعی طور پر روپے کی قدر روکنے کی کوشش کی ناکامی نے پاکستان کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے اثرات پاکستانی معیشت پر گہرے نقوش چھوڑ رہے ہیں ۔ مالیاتی ماہرین ان تحفظات کا اظہار کررہے ہیں کہ پاکستان کو مالیاتی بحران سے نکلنے میں بھی طویل وقت درکار ہوگا ۔ پاکستان سے برآمدات کی کمی اور درآمد میں اضافے سے ملک میں غیر ملکی اثاثوں کے ذخائر تشویش ناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔ پاکستان اس وقت مخالف عناصر کے پھیلائے ہوئے جال میں الجھا ہوا ہے اور ان حالات میں ریاست کے لئے ٹھوس فیصلے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سیاسی افراتفری اور اقتدار کی کرسی کے لئے کھینچا تانی میں مصروف سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل میں الزامات در الزامات کی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں ۔ اداروں کا ایک ایک صفحے پر نہ ہونے کی افواہوں نے حالات کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ ان تمام حالات میں ہمیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا کئی اطراف سے ہمارے گرد اپنا جال تنگ کر چکا ہے۔
ہم مستقبل میں درپیش مسائل سے آنکھیں بند کئے قوم کو جھوٹی تسلیاں و دلاسے دے رہے ہیں۔ ہمیں اپنے رویوں اور روش کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ ریاست کے تمام اداروں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ باہمی اتفاق کا مظاہرہ کئے بغیر عالمی پراکسی سے نکلنا آسان نہیں ہوگا ۔ عام انتخابات کی متوقع آمد میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ایسی شخصیات کو منتخب کرنا ہوگا اپنے اپنے شعبے میں عالمی تجربہ و اچھی شہرت رکھتے ہوں۔ ہمارے سامنے امریکی انتظامیہ کی مثال سامنے ہے جہاں امریکی صدر اہم عہدوں کیلئے ماہرین کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ہمیں اقربا پروری اور سیاسی فرش بوسی سے خود کو پہلے آزاد کرنا ہوگا ۔ کیونکہ یہی پاکستان کے حق میں بہتر ہے۔ پاکستان کو مسائل سے نبر الزما ہونے کے لئے نمائشی نہیں بلکہ حقیقی ماہرین کی ضرورت ہے۔حکومت کو اپنی نظریاتی و زمینی سرحدوں کے تحفظ کے لئے عوام کو آب بورڈ رکھے کیونکہ تمام جنگیں رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ بلند و روشن حوصلوں سے ہی جیتی جاتی ہیں۔لہذا عوام کو زمینی حقائق سے بے خبر رکھنے کی روش ختم کرنے کی ضرورت ہے۔