اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعہ چار اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق دو مختلف لیکن انتہائی قابل اعتماد ذرائع نے تصدیق کر دی ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد میں مقیم افغان طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے جمعرات تین اکتوبر کو پاکستانی دارالحکومت ہی میں موجود امریکا کے خصوصی مذاکراتی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ایک ملاقات کی۔
افغان طالبان کا یہ وفد دو دن پہلے بدھ کو پاکستان پہنچا تھا جبکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد بھی اسلام آباد ہی میں تھے۔ طالبان کے اس وفد کی قیادت افغانستان میں طالبان تحریک کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔
یہ ملاقات امریکا اور طالبان کے مابین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد سے اولین سیاسی رابطہ تھی، جس میں صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں اعلان کر دیا تھا کہ امریکا کی افغان طالبان کے ساتھ امن بات چیت ‘مر‘ گئی ہے۔ امریکا اور طالبان کے مابین یہ بات چیت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی ماہ پر محیط متعدد مذاکراتی ادوار پر مشتمل اور اپنے کامیاب اختتام کے بہت قریب تھی۔
اس بات چیت کا مقصد طالبان کے ساتھ ایک ایسا امن معاہدہ طے کرنا تھا، جس کے تحت طالبان عسکریت پسندوں کو سلامتی کی ضمانتیں دینا تھیں اور پھر امریکی فوج کو ہندوکش کی اس ریاست سے نکل جانا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اس بات چیت کے ‘مردہ‘ ہو جانے کا اعلان افغان دارالحکومت کابل میں ہونے والے اس ہلاکت خیز بم حملے کے بعد کیا تھا، جس میں ایک امریکی فوجی کے علاوہ 11 افغان شہری بھی مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے قبل بھی طالبان نے افغانستان میں اپنے ہلاکت خیز حملے کافی تیز کر دیے تھے تاکہ وہ بظاہر دوحہ میں جاری مذاکرات میں امریکا پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال سکیں۔
اسلام آباد میں زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے وفد کے مابین ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ یہ ملاقات ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی، تاہم اس کا ‘مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات باقاعدہ طور پر بحال‘ ہو گئے ہیں۔
پاکستان کے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ”طالبان عہدیداروں کی امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے اور میں آپ کو صرف اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ اس ملاقات کے عمل میں آنے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ملاقات کے لیے پاکستان کو فریقین کو اس امر کا قائل کرنا پڑا کہ یہ مکالمتی رابطے امن عمل کے لیے کتنے اہم ہیں۔‘‘
افغان طالبان اور امریکی مندوب کی اسی ملاقات کی ایک اور ذریعے نے بھی تصدیق کر دی اور کہا کہ اس ملاقات میں باقاعدہ امن عمل پر تو کوئی گفتگو نہیں ہوئی تاہم اس کا مقصد اطراف کے مابین اعتماد سازی تھا۔ اس بارے میں پاکستانی دارالحکومت میں امریکی سفارت خانے اور واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ نے باقاعدہ طور پر کچھ بھی کہنے سے احتراز کیا۔
امریکی دفتر خارجہ کے ایک نمائندے نے روئٹرز کو بتایا کہ زلمے خلیل زاد نے اس ہفتے اس لیے پاکستان میں کئی دن گزارے ہیں کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مشاورت کر سکیں۔ اس نمائندے نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد میں ایسی کسی میٹنگ کا ہونا جمود کے شکار افغان امن عمل کی بحالی نہیں ہے۔
اسی طرح افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس امر کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ طالبان کا وفد اسلام آباد میں خلیل زاد سے ملا ہے۔ تاہم طالبان کے ترجمان نے یہ ضرور کہا کہ یہ وفد آج جمعے کو بھی پاکستانی دارالحکومت میں ہے، جہاں اس کی ملاقاتیں جاری ہیں۔