تحریر : حافظ ابتسام الحسن ایک مرتبہ پھر ہمارے دوست نما دشمن امریکہ نے ہمارے خلاف اپنے سینے میں چھپے ہوئے بغض و غضب کو دھمکیوں کی صورت میں باہر نکالا ہے ۔جس میں سر فہرست دھمکی امریکی امداد بند کرے کے متعلق ہے۔وہ امداد جو ہوتی تو اونٹ کے منہ میںزیرے کے برابر، مگر امریکہ صاحب بہادر اس پر ایسے اتراتا ہے جیسے ہمارے ملک کا ایک ایک ذرہ اور پتہ اسی امداد کے بھروسے ہی زندہ ہے ۔ خدانخواستہ اگر اس نے یہ امداد بند کردی تو ہمارے ملک پاکستان میں قحط پڑ جائے گا ار اس کی حالت صومالیہ جیسی ہو جائے گی ،ہماری معیشت کا پہیہ جام ہو جائے گا ،ہمارے کا ر خانوں کو تالہ اور ہماری منڈیوں کو زوال آجائے گا ،ہما رے تاجر راتوں رات بھکاری ہو جائیں گے ۔ویسے اس دفعہ امریکہ کے بھورے بالوں والے عقل و خرد سے عاری صدر نے جس رعونت بھرے اور متکبرانہ انداز میں امریکی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے اس سے ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کوئی مافوق الفطرت چیزہے جس کے پاس اناج اور غلوں کے ڈھیرہیں اور دنیا اسی کے دئیے ہوئے ٹکڑوں پر پلتی ہے، بالخصوص پاکستان ۔پاکستان کے متعلق امریکہ کے ذہن میں نقشہ کچھ ایسے ہے کہ اگر امریکہ کے چند ڈالر امداد کی صورت میں پاکستا ن کو نہیں ملے تو پورا پاکستان گھٹنوں کے بل گر کر کہے گا مائی باپ آپ ہماری امید اور سہارا ہو ،آپ ہیں تو ہم ہیں،اگر آپ نے ہماری امداد روک دی تو ہم تو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ امریکہ نے پاکستان کو مدد بند کر نے کی دھمکی دی ہو اس سے پیشتر بھی کئی مرتبہ یہ راگ الاپا جا چکاہے ۔جب سے پاکستان امریکہ کا اتحادی ہوا ہے تب سے اب تک تقریبا تمام امریکی صدور پاکستان کو یہ دھمکی دینے کا شرف حاصل کر چکے ہیں ۔موجودہ امریکی صدر ابھی تک اس عظیم فریضے سے دور تھے لہٰذا انہوں نے اس کی ادائیگی میںمزید تاخیر کو مناسب نہیں سمجھا اور خود کو بڑا ثابت کرنے اور اپنی عوام کے سامنے ہیرو بننے کے لیے بالآخر دیوانے کی بھڑک مار ہی ڈالی ۔حیرت ہے چند دن قبل امریکہ کے یہی صدر افغانستان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی باتیں کر رہے تھے اور امریکہ کا جو خرچ افغانستان کی جنگ پرہوا تھا اسے افغانستان کے ایک ٹریلین ڈالر کے وسائل پر قابض ہو کر پوراکرنے کے منصوبے بنا رہے تھے، وہ یکایک اتنے رئیس کیسے ہو گئے کہ پاکستان کو امداد دے سکیں ۔امریکہ کی معاشی اور افرادی حالت اب ایسی نہیں رہی کہ وہ مزید کسی جنگ میں کود سکے۔
امریکی عوام تو اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ کہیں امریکی حکومت اپنی جھوٹی شان و شوکت اور جھوٹے رعب و دبدے کے چکر میں کوئی اور جنگی کھاتہ نہ کھول بیٹھے ۔اس کاواضح ثبوت امریکہ میں ہو نے والے وہ احتجاجی مظاہرے ہیں جو ان امریکی مائوں کی طرف سے کیے گئے تھے جن کے فوجی بچے امریکی جنگ میں کام آچکے تھے ۔امریکی عوام اب ان جنگوں سے اکتا چکی ہے اور ان کا خاتمہ چاہتی ہے جو ان کے بچوں اور معیشت دونوں کو نگل چکی ہیں ۔پہلے ویتنام میںجگ ہنسائی ہوئی ،پھر عراق میں جوتے کھائے اور افغانستان نے تو کمر توڑ کے رکھ دی۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہر جنگ کے بعد امریکہ نے اپنی شکست کا واضح اعتراف بھی کیا۔مگر امریکہ کی ایک بری عادت ہے کہ وہ اتنا شکست خوردہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو سپر پاور ہی سمجھتا ہے۔در حقیقت اسی سپر پاوری کے نشے کو برقرار رکھنے کے لیے ہی وہ کسی کو چند ڈالر امداد کے نام پر بھیک دیتا ہے اور کسی کو امداد روکنے کی دھمکیا ں دیتا ہے ۔ اس دھمکی کے پیچھے ایک محرک یہ بھی ہے کہ موجودہ امریکی صدر ایک متعصب اور سخت گیر آدمی ہے جس کا برملا اظہار وہ برسر اقتدار آنے سے پہلے بھی کئی دفعہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر کرچکاتھا ۔وہ سمجھتا تھا کہ کرسی صدارت پر براجمان ہونے کے بعد وہ ہر طرف امریکی دھاک بٹھا دے گا ،مسلمانوں کا جینا حرام کر دے گا اور ان کو امریکہ کا ایسے غلام بنادے گا جو اس سے پیشرو امریکی صدر نہ بنا سکے ۔مگر کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد جناب کو احساس ہوا کہ جس امریکی طاقت کے بل بوتے پروہ اتنی ڈھینگیں مار رہا تھا وہ تو کب کی ہوا ہو چکی۔
اب امریکہ بہادر میںسوائے کھوکھلے پن کے اور کچھ نہیں بچا ۔تو جناب کو ایک دفعہ مکمل سرد ہونا پڑا ۔مگر عادت سے مجبور اپنے تعصب کااظہار کیے بنا رہنا بھی مشکل تھا اس لیے تکمیل عادت کے واسطے پہلے سات مسلم ممالک پر امریکی داخلے پر پابندی کی ناکام کوشش کی اور اب افغانستان کے وسائل پر قبضے کی خواہش کااظہار کیا ۔اب امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر اپنی عادت پوری کرنی تھی اور امریکی سپر پاوری کا دھونس بھی جمانا تھا ۔سو پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکی دی اور دہشت گردی کو ختم نہ کرنے کے سنگین الزامات لگا ڈالے ۔اس دھمکی سے کچھ اور نہیں بس اتنا ہوگا کہ اگلے چھ ماہ تک ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر لگے گا اور امریکی خام خیالی میں سپر پاور ۔ امریکی صدر کی طرف سے دی گئی اس بے تکی دھمکی کے متعلق پاکستان کو ٹھوس اور واضح پالیسی بنانا ہوگی ۔ہمارے حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ کب تک ان جیسے متعصب اور سرپھرے صدر چند ٹکوں کی امدا د کے نام پر ہماری قومی غیرت پر حملہ آور ہوتے رہیں گے۔
پاکستان ایک آزاد اور نظریاتی ملک ہے جس کی اپنی عزت و توقیر اور مقام و مرتبہ ہے ،یہ اس وقت ستاون اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی طاقت ہے ،پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز و محور ہے ، کفر کی آنکھ میں چھبنے والا سب سے برا کانٹا ہے ،سب سے بڑی بات یہ ”لاالٰہ الا اللہ ” کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا ۔ایسے ملک کی غیرت پر کوئی چند ٹکوں کے نام پر حملہ کرے کم از کم یہ ایک محب وطن کے لیے تو ناقابل برداشت ہے ۔پتہ نہیں ایوانوں میں بیٹھے اصحاب اقتدار اس تذلیل کو ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کر لیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ امریکہ نے اب تک جتنی امداد ہمیں دی ہے اس سےکہیں زیادہ تو ہمارا نقصان ہو چکا ہے اور اس امداد کے بدلے ہم جتنے جنازوں کوکندھا دے چکے ہیں اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔دیکھا جائے تو یہ امداد ہمارے لیے سراسر خسارے کا باعث رہی ہے اور ہماری معیشت کے روبہ زوال ہونے کے پیچھے زیادہ تر ہاتھ اسی نامراد کا ہی ہے ۔اب کی بار جو امریکہ نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے تو اس سے گزارش ہے وہ دھمکی تک نہ رہے بلکہ اس ناسور کو ہمیشہ کے لیے بند بھی کردے ۔کیونکہ امداد کے نام کے یہ چند ٹکڑے ہماری غیرت ایمانی کے آگے بند باندھے ہوئے ہے ۔غداروں کی وظیفہ خوری بندہوجائے گی تو یہ ملک خود بخود ترقی کی راہوں پر چل پڑے گا۔