امریکہ (جیوڈیسک) امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں نئی متحدہ حکومت کے قیام کے بعد امریکہ اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی کے دوطرفہ معاہدے پر رواں ماہ کے اختتام سے پہلے ہی دستخط ہو جائیں گے۔ افغانستان میں حریف صدارتی امیدواروں ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے اتوار کو کابل میں شراکتِ اقتدار کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس سے ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی ڈیڈ لاک ختم ہوا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ ’یہ سکیورٹی معاہدہ افغانستان میں ترقی کے بڑے مواقع پیدا کرے گا۔‘ دو طرفہ معاہدے کے تحت اس بات کا تعین ہونا ہے کہ رواں برس کے اختتام پر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے عمومی انخلا کے بعد بھی کتنے امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے۔
سبکدوش ہونے والے افغان صدر حامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا تاہم ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں اس پر دستخط کر دیں گے۔ افغانستان میں صدارتی انتخاب کے نتائج دھاندلی کے الزامات اور دوبارہ گنتی کی وجہ سے کئی ماہ تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔
اب طے پانے والے معاہدے کے تحت اشرف غنی ملک کے نئے صدر اور عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکیٹو ہوں گے جنھیں وزیراعظم کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے دونوں رہنماؤں کو شراکتِ اقتدار کے معاہدے پر دستخط کرنے پر بھی مبارکباد دی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں اب ایک ہفتے کے اندر اندر ہی امریکہ اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ حفاظتی معاہدے پر دستخط ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اس سکیورٹی معاہدے کے تحت غیر ملکی فوجی ’انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں‘ کے علاوہ افغان فوج کی مدد اور تربیت کے لیے افغانستان میں موجود رہ سکیں گے۔
ایساف افواج نے سنہ 2013 میں پورے افغانستان کی سکیورٹی افعان فوج کے حوالے کر دی تھی تاہم اب بھی وہاں ہزاروں غیر ملکی فوجی موجود ہیں۔ یہ فوجی 2014 کے آخر تک افغانستان سے چلے جائیں گے اور امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے دس ہزار فوجی افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد کے لیے 2014 کے بعد بھی افغانستان میں رہیں۔
امریکہ اور افعانستان کے دو طرفہ معاہدے کے تحت امریکی فوجی افغان سرزمین پر افغان حکام سے مشورہ کیے بغیر کوئی کارروائی نہیں کریں گی تاہم امریکہ افغانستان کا کسی بیرونی حملے کی صورت میں دفاع نہیں کرے گا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ فوجی کارروائیوں میں الجھے۔