امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) سابق امریکی سفارت کار، پاکستانی امور کی ماہر اور صدر اوباما کے دور میں مشیر برائے پاکستانی امور رہنے والی رابن رافیل کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے افغانستان کو جدید بنانے کی کوشش کی وجہ سے وہاں معاملات خراب ہوئے۔
اسلام آباد میں مارگلہ ڈائیلاگ 2021 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی امور کی ماہر رابن رافیل نے کہا کہ افغانستان میں ابھرنے والے مواقع سے امریکا کی دفاعی لابی کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا، جس سے بحران مزید سنگین ہوا۔
پیر کو شروع ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کیا ہے، جس کا افتتاح گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا۔ آج کے اجلاس میں کئی سابق اور حاضر سروس سفیروں نے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی امور کے ماہرین اور معاشی ماہرین نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔
رابن رافیل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ طالبان ایک مقامی قوت ہیں اور یہ کہ صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے ان سے بات چیت کرنا ضروری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اب بھی افغانستان میں ایک مضبوط سفارتی موجودگی چاہتا ہے کیونکہ اب بھی اس کا مقصد افغانستان کو جدید بنانا ہے۔ سابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انسانی المیہ یا بحران بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کو حل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اس بات سے اتفاق کیا کہ دنیا کثیر القطبی نظام کی طرف جارہی ہے، جس میں چین اور امریکا دو اہم طاقتیں ہیں۔
سابق امریکی سفیر برائے پاکستان کیمرون منٹر کا کہنا تھا کہ امریکا اب بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کو اپنا پارٹنر رکھے اور اس کے لئے خطے میں بہت کچھ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ مسائل کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس میں دو طرفہ تعلقات میں عوامی رابطوں کو فروغ دینا اہم ہے۔
پاکستان کے لیے روسی سفیر ڈینیلا گینج کا کہنا تھا کہ دنیا ایک اتفاقی تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ یہ تصادم جوہری نہ ہو۔
روسی سفیر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں پاکستان کے کردار کو بھی سراہا۔ برطانیہ کے سفیر برائے پاکستان ڈاکٹر تھامس ٹرنر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں میں بہت سی صلاحیتیں موجود ہیں لیکن 2050 تک پاکستان کی آبادی 380 ملین ہو جائے گی، جو ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے لیے پاکستان کو پندرہ لاکھ روزگار کے مواقع فراہم کرنے پڑیں گے۔ برطانوی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ اگر خطے میں تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو پاکستان کے جی ڈی پی میں تیس فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کی ڈپٹی سفیر برائے پاکستان پینگ شنزی کا کہنا تھا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ ریاستوں نے کورونا وبا کو بھی سیاسی رنگ دے دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس بیماری کے حوالے سے مختلف ممالک میں تعاون بڑھانا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا سے دنیا میں دو سو پینسٹھ ملین لوگ متاثر ہوئے اور چین نے دو ارب سے زیادہ ویکسین کی خوراک فراہم کیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے اپنا فوکس جیو اکنامکس کی طرف کر دیا ہے، جو بہت بڑی اسٹریٹیجک تبدیلی ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دنیا دو قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے اور بین الاقوامی نظام بحرانی کیفیت میں ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نوجوان ابھر کر سامنے آ رہے ہیں اور ملک کی 64 فیصد آبادی 18 سال سے کم عمر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں متوسط طبقہ بھی اُبھر رہا ہے، جو اسی ملین سے بھی زیادہ ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ برطانیہ اور افریقہ کی طرف پاکستان کی برآمدات میں بالترتیب اٹھائیس اور سات فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے چین سے تعلقات بہت مضبوط ہیں اور اس میں مزید مضبوطی آئے گی۔ کانفرنس سے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور کئی دوسری نامور شخصیات نے بھی خطاب کیا۔