واشنگٹن: امریکی صدر براک اوباما نے بالآخر اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں معصوم لوگ بھی مارے گئے۔
واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں براک اوباما کا کہنا تھا کہ ماضی میں ڈرون حملوں پر اس حوالے سے تنقید کی جاتی رہی کہ ڈرون حملوں کا نشانہ ٹارگٹ ٹھیک ہوتا تھا جتنا کہ ہونا چاہیئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون حملوں میں عام افراد بھی مارے گئے جو نہیں مارے جانے چاہیئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں سے امریکی انتظامیہ اس حوالے سے کام کر رہی ہے تاکہ ڈرون حملوں میں سویلین ہلاکتیں نہ ہوں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ایکشن لینے سے پہلے ہم اپنے ٹارگٹ کو انٹیلی جنس کی مدد سے بھرپور طریقے سے دیکھتے اور چیک کرتے ہیں اور پھر ڈبل چیک کرنے کے بعد ایکشن لیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکا واضح طور پر صرف ان پناہ گاہوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے داعش یا القاعدہ کی مدد کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان سمیت مختلف ممالک میں امریکی ڈرون حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے اوباما انتظامیہ کو دنیا بھر میں سخت تنقید کا سامنا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکا نے صومالیہ میں الشہاب کے ٹھکانے پر ڈروں حملہ کیا جس میں 150 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، روان برس فروری میں بھی امریکا نے لیبیا میں داعش کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اسی طرح یمن میں بھی فروری کے مہینے میں امریکی ڈرون حملے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے جب کہ اس سے قبل بھی امریکا نے یمن میں شدت پسندوں کے ٹھکانے کے بجائے ایک شادی کی تقریب پر ڈرون حملہ کیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس اکتوبر میں امریکا کے لڑاکا طیاروں نے افغانستان میں بین الاقوامی فلاحی ادارے کے تحت چلنے والے اسپتال کو بھی نشانہ بنایا تھا جس میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں تھیں۔ امریکا نے 2008 میں پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ کے گاؤں ڈمہ ڈولا میں بھی ایک مدرسے پر ڈروں حملہ کیا جس کے نتیجے میں 90 کے قریب بچے جاں بحق ہو گئے تھے جب کہ پاکستان میں اب تک ہزاروں معصوم اور بے گناہ افراد ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔