امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) رائے عامہ کے بیشتر جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن صدر ٹرمپ سے مسلسل آگے رہے ہیں۔ لیکن ان جائزوں پر اس لیے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پچھلی بار یہ سروے غلط ثابت ہو گئے تھے۔
اس الیکشن میں ایک تہائی امریکی یعنی لگ بھگ دس کروڑ شہری پہلے ہی ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جس کی وجہ سے خیال ہے کہ اس بار ووٹر ٹرن آؤٹ غیر معمولی طور پر زیادہ دیکھنے میں آئے گا۔
منگل کو پولنگ کا آغاز امریکی ریاست ورمانٹ میں پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر تین بجے سے ہو گیا۔ امریکا چونکہ ایک بہت بڑا ملک ہے اس لیے ملک کے مغربی حصوں میں پولنگ ختم ہونے اور الیکشن نتائج آنے میں وقت لگے گا۔
یہ انتخابات غیر معمولی حالات میں ہو رہے ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے باعث سال دو ہزار بیس دنیا کے لیے پریشان کن سال ثابت ہوا۔ لیکن امریکا اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
ساتھ ہی نسلی تعصب کے خلاف تحریک نے ملک میں بے چینی پیدا کر دی اور مختلف شہروں میں لوٹ مار کے واقعات دیکھے گئے، جس نے صدر ٹرمپ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
اس سال جنوری تک صدر ٹرمپ پر یہ اعتماد کیا جا رہا تھا کہ معاشی میدان میں بہتر کارکردگی کے باعث وہ دوبارہ الیکشن جیت جائیں گے۔ لیکن کئی مبصرین کی رائے میں امریکی معیشت میں زبردست گراوٹ کے بعد اب ان کا سیاسی مستقبل کھٹائی میں دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر صدر ٹرمپ واقعی الیکشن ہار جاتے ہیں تو وہ نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں، جس سے انتقال اقتدار کا مرحلہ بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
بعض شہروں میں ان کے حمایتی سڑکوں پر بھی آ سکتے ہیں۔ دارالحکومت واشنگٹن اور نیویارک سے اطلاعات ہیں کہ ممکنہ ہنگاموں کے مدنظر کاروباری علاقوں میں لوگوں نے اپنے دفاتر اور دوکانیں بند کرکے سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
امریکا کا صدارتی الیکشن ایک قدرے پیچیدہ مرحلہ ہے۔ ہار جیت کا دارومدار عام شہریوں کے ووٹوں سے زیادہ ہر ریاست سے منتخب ہونے والے “الیکٹرز” پر ہوتا ہے، جو بعد میں صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔
ہر ریاست سے ان “الیکٹرز” کی تعداد وہاں سے منتخب ہونے والے اراکین کانگریس کے برابر ہوتی ہے۔
538 ارکان پر مشتعمل اس گروپ کو “الیکٹرل کالج” کہا جاتا ہے۔ اس گروپ کی اکثریت یعنی 280 میمبر جس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں وہ ملک کا صدر قرار پاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلی بار سن دو ہزار سولہ کے صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ سے لگ بھگ تیس لاکھ زائد ووٹ ملے لیکن “الیکٹرل کالج” میں ناکافی ووٹوں کی وجہ سے وہ صدارتی انتخاب نہ جیت سکیں۔
وہ ریاستیں جہاں ہار جیت کا فیصلہ ہو گا یوں تو الیکشن میں ہر ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے، لیکن “الیکٹرل کالج” کے نظام میں بعض ریاستوں کا ووٹ غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس الیکشن میں بھی بعض ریاستیں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں کہ ملک کا آئندہ کا صدر کون ہو گا۔ ان ریاستوں میں ایریزونا، نواڈا، ٹیکساس، فلوریڈا، جورجیا، نارتھ کیرولینا، پینسلوینیا، اوہائیو، مشیگن اور وسکانسن شامل ہیں۔