نیویارک (جیوڈیسک) امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ترک عالم فتح اللہ گولن نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ امریکا ترکی کی جانب سے باضابطہ درخواست کے باوجود انھیں بے دخل نہیں کرے گا۔
انھوں نے یہ بات ایک خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔ وہ 1999ء سے امریکی ریاست پنسلوینیا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ترکی نے ان پر صدر طیب ایردوآن کی حکومت کا ایک ناکام فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا ہے۔
امریکا کی دنیا میں شہرت ایک ایسے ملک کی ہے جو قانون کی حکمرانی کی پاسداری کرتا ہے۔اس لیے مجھے اعتماد ہے کہ وہ مناسب طریق کار کی پیروی کریں گے”۔
ترکی نے 16 اگست کو باضابطہ طور پر امریکا کو فتح اللہ گولن کو بے دخل کرکے حوالے کرنے کی درخواست دی ہے۔یہ بھی پتا چلا ہے کہ امریکا کے دورے پر جانے والے ترک پارلیمان کے ارکان اپنے ساتھ علامہ گولن کے خلاف ثبوتوں کے 85 بکسے لے کر گئے تھے۔
ان میں ان کے ناکام فوجی بغاوت میں ملوّث ہونے کے شواہد ہیں۔ان ترک پارلیمینٹرینز نے امریکی محکمہ انصاف کے عہدے داروں سے ملاقات میں ثبوتوں کا یہ انبار پیش کیا تھا۔
العربیہ نے جب ان سے سوال کیا کہ کیا امریکا ترکی کے دباؤ میں آسکتا ہے تو انھوں نے کہا:”یقیناً امریکی حکام کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ بھی دھوکے میں آجائیں۔اگرچہ فنی طور پر اس بات کا امکان موجود ہے لیکن میں کوئی نمایاں امکانی واقعہ رونما ہونے کا خیال نہیں کرتا”۔
امریکی محکمہ خارجہ کے علاقائی ترجمان نیتھانیل ٹیک نے قبل ازیں العربیہ انگلش سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ترک عالم کی کسی غلط کاری کو ثابت کرنے کے لیے مضبوط اور قابل اعتبار شہادت کی ضرورت ہوگی”۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ”اس مقصد کے لیے شواہد پر مبنی مخصوص دستاویز کی ضرورت ہے اور یہ دستاویز براہ راست ہمارے محکمہ انصاف کو موصول ہونی چاہیے۔اس کے بعد ہم امریکا کے وفاقی قانون اور بین الاقوامی قانون کے مطابق درخواست کا جائزہ لیں گے اور پھر ہم کسی فیصلے تک پہنچ سکیں گے”۔
تطہیر کے عمل پر تنقید فتح اللہ گولن نے انٹرویو میں اپنی خدمت تحریک سے وابستہ لوگوں یا اس سے مشتبہ تعلق کے الزام میں سرکاری ملازمین کے خلاف صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت کی تطہیر کے نام پر انتقامی کارروائیوں پر تنقید کی ہے۔
ترک پراسیکیوٹرز نے جمعہ کے روز مختلف جامعات کے چوراسی تدریسی ماہرین کے خلاف گولن تحریک سے تعلق کے الزام میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔تازہ اعداد وشمار کے مطابق ترک حکومت 15 جولائی کے بعد ناکام فوجی بغاوت سے تعلق کے الزام میں قریباً چالیس ہزار سرکاری ملازمین کو حراست میں لے چکی ہے اور 2360 پولیس افسروں کو برطرف کردیا گیا ہے۔استنبول میں خدمت تحریک سے وابستہ کمپنیوں کے انتظامی افسروں سمیت 187 مشتبہ افراد کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاچکے ہیں۔
علامہ گولن نے العربیہ کے نمائندے سے گفتگو میں مزید کہا کہ ”ترکی بیرونی تناظر میں مسلم دنیا میں اپنی بہت زیادہ ساکھ کھو چکا ہے۔اس کوشش اور اس کے بعد کیے جانے والے اقدامات کا کچھ فائدہ نہیں ہوا لیکن تطہیر کا عمل جاری ہے اور جب تک یہ جاری رہتا ہے وہ (ترک ارباب اقتدار) دنیا سے کسی قسم کی ہمدردی حاصل نہیں کرسکیں گے”۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ترکی میں جاری اس صورت حال کا کوئی حل بھی ہے تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ” مزید تنہائی سے ملک اپنے ہمسایوں میں بھی الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گا”۔
”جہاں تک صورت حال کے حل کا تعلق ہے تو میرے خیال میں جب ترکی کی تنہائی دنیا میں ایک خاص سطح پر پہنچ جائے گی اور جب نیٹو یا یورپی یونین کی جانب سے بعض اقدامات کیے جائیں گے تو شاید اس سے تصویر تبدیل ہو سکے یا انھیں جب اپنی ہی جماعت میں تقسیم کا تجربہ ہو اور جب جماعت کے اندر سے ہی کچھ لوگ جو کچھ رونما ہورہا ہے،اس کے خلاف بول پڑیں تو شاید وہ جبر واستبداد سے باز آ جائیں”۔