واشنگٹن (جیوڈیسک) دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا میں خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ آیا وہاں اگلے بڑے مالیاتی بحران کی وجہ ملکی طلبہ بنیں گے؟ اس لیے کہ امریکا کی مالیاتی تاریخ میں اس وقت قرضوں کے ’دوسرے سب سے اونچے پہاڑ‘ کی وجہ یہی طلبہ ہیں۔
امریکا میں طلبہ اس وقت مجموعی طور پر اتنے زیادہ مقروض ہیں کہ ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عام شہریوں کے لیے گھر خریدنے کے لیے حاصل کردہ قرضوں کے بعد امریکا میں سب سے زیادہ قرضے یہی طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے لیتے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر مالیاتی امور کے کئی ماہرین اب ان خدشات کا اظہار بھی کرنے لگے ہیں کہ آیا مستقبل میں یہی طالب علم امریکا کے لیے ایک نئے ’لیہمن برادرز بحران‘ کی وجہ بن جائیں گے۔
امریکی طالبہ ٹونی ونسنٹ نےتین سال قبل پبلک ہیلتھ کے شعبے میں اپنی ماسٹرز ڈگری حاصل کی تھی۔ انہوں نے اس تعلیم کے لیے اتنا زیادہ قرض لیا تھا کہ بعد میں اپنی پہلی تنخواہ وصول کرنے سے بھی قبل ان کے ذمے واجب الادا قرض کی رقم ایک لاکھ ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی۔ ٹونی نے پہلے ایک سرکاری یونیورسٹی سے جو بیچلرز ڈگری حاصل کی، اس کے لیے انہیں 15 ہزار ڈالر قرض لینا پڑے تھے۔ پھر مشہور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری کے لیے انہوں نے مزید 85 ہزار ڈالر قرض لیے۔
اب ٹونی ونسنٹ کی عمر 32 برس ہے، وہ صحت کے شعبے میں ایک عوامی فلاحی تنظیم کے لیے پروگرام مینیجر کی ملازمت کرتی ہیں اور ان کو ملنے والی تنخواہ اتنی ہوتی ہی نہیں کہ وہ اس میں سے قرض کی رقم کی کوئی قسط بھی ادا کر سکیں۔ ٹونی کو باقاعدہ ملازمت کرتے ہوئے تین سال ہو بھی چکے ہیں اور روزگار کی منڈی کی صورت حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے کیریئر کے شروع میں ہی ہیں اور ان کے ذمے 80 ہزار ڈالر کا قرض ابھی تک باقی ہے۔
ٹونی ونسنٹ امریکا میں بہت مقروض طالب علموں میں سے کوئی واحد مثال نہیں ہیں۔ پورے امریکا میں ان کی طرح کے مزید 4.4 ملین دوسرے طلبہ بھی ہیں، جو ابھی اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں، لیکن قرضوں کے بےحال کر دینے والے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ان طلبہ کے ذمے ریاستی قرضوں کی مجموعی مالیت 1.5 ٹریلین (1500 بلین) ڈالر بنتی ہے۔
اسی صورت حال کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکا پر مجموعی طور پر قرضوں کا جتنا بھی بوجھ ہے، اس میں سے ریاست کی طرف سے طلبہ کو دینے جانے والے تعلیمی قرضوں کا حصہ قریب سات فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی کئی ملین امریکی طلبہ کو نجی شعبے کے مالیاتی اداروں اور بینکوں سے حاصل کردہ 64.2 بلین ڈالر کے قرضے بھی واپس کرنا ہیں۔
امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے گزشتہ برس جون میں جاری کردہ ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج کے مطابق 2018ء میں امریکا میں 42 فیصد طلبہ کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے مجبوراﹰ قرضے لینا پڑے تھے۔ ان قرضوں کی مالیت اتنی زیادہ ہے کہ آج ہر امریکی طالب علم اوسطاﹰ 20 ہزار سے لے کر 25 ہزار ڈالر تک کا مقروض ہے۔
قرضوں سے متعلق یہ اعداد و شمار ایسے امریکی طالب علموں کے تھے، جو 2018ء سے چند سال پہلے تک ایسے تعلیمی قرضے حاصل کر چکے تھے۔ لیکن بعد میں اپنی اعلیٰ تعلیم شروع کرنے والے طلبا و طالبات کی حالت اور بھی خراب تھی۔ امریکی یونیورسٹیوں کی امریکن کونسل آف ایجوکیشن یا ACE کہلانے والی ملکی تنظیم کے ڈائریکٹر جان فین اسمتھ کے مطابق جن ملکی طلبہ نے اپنی اعلیٰ تعلیم 2016ء میں شروع کی تھی، آج ان کے ذمے واجب الادا ریاستی قرضوں کی فی کس اوسط مالیت 37 ہزار ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
اے سی ای امریکا میں قریب 1800 یونیورسٹیوں کی نمائندہ ملکی تنظیم ہے۔ جان فین اسمتھ کے بقول آج امریکا میں یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم شہریوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے یہ لڑکے اور لڑکیاں سرکاری قرضے بھی زیادہ لیتے ہیں، جو قومی سطح پر ان قرضوں کی مجموعی مالیت میں واضح اضافے کی اہم ترین وجہ بھی ہے۔
امریکا میں گزشتہ برس موسم خزاں میں مختلف یونیورسٹیوں میں رجسٹرڈ طلبا و طالبات کی تعداد قریب 20 ملین بنتی تھی۔ یہ تعداد سن 2000ء کے موسم خزاں کے مقابلے میں کم از کم بھی پانچ ملین زیادہ تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں مقامی نوجوانوں کے لیے یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم اب ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے، جو ایک رجحان کے طور پر قابل فہم بات ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے 2013ء کے ایک مطالعاتی جائزے کے نتائج کے مطابق 2020ء تک امریکا میں روزگار کی منڈی میں جتنی بھی نئی ملازمتیں نکلیں گی، ان پر بھرتی کے لیے 65 فیصد تک آسامیوں کے لیے آجرین کا تقاضا یہ ہو گا کہ درخواست دہندگان کے پاس کم از کم بھی کسی یونیورسٹی سے حاصل کردہ بیچلرز کی ڈگری ہونا چاہیے۔
دولاکھ بیس ہزار اسکولوں کے باوجود پاکستان میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سن 2010 سے ہر سال حکومت تعلیم کے بجٹ میں سالانہ15 فیصد اضافہ کر رہی ہے لیکن اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ امریکا میں طالب علم اپنے لیے قرضے لے کر اپنے مستقبل میں جو سرمایہ کاری کرتے ہیں، وہ اس لیے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی معیشت میں اب کسی کالج میں تعلیم حاصل کرنا بھی اتنا مہنگا ہو چکا ہے، جتنا پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔
اگرچہ ان اخراجات کا انحصار متعلقہ کالج، وہاں حاصل کی جانے والی تعلیم اور اس کے دورانیے پر بھی ہوتا ہے، تاہم بہت سے واقعات میں اس تعلیم کے لیے اخراجات بڑھ کر 1988ء کے مقابلے میں اب چار گنا تک ہو چکے ہیں۔
امریکا میں اپنی تعلیم مکمل اور پھر کوئی ملازمت شروع کرنے والے طلبا و طالبات کو اوسطاﹰ ہر ماہ حکومت کو ایسے قرضوں کی قسط کے طور پر 351 ڈالر واپس کرنا ہوتے ہیں۔ قرضوں کی واپسی کی یہ انفرادی مدت اکثر کئی عشروں پر محیط ہوتی ہے۔ جو طلبہ یہ قرضے واپس کرتے بھی ہیں، ان میں سے بھی بہت سے ایک دو سال تک قسطیں ادا کرنے کے بعد مزید ادائیگیوں کے قابل نہیں رہتے یا ان کی آمدنی ایسی مالی اقساط کے لیے بالکل ناکافی ہوتی ہے۔
نیو یارک یونیورسٹی میں مالیاتی امور کی تعلیم دینے اور امریکی طلبہ کے تعلیمی قرضوں سے متعلق معاملات پر تحقیق کرنے والے ماہر کونسٹانٹین یانیلِس کہتے ہیں، ’’ان قریب ساڑھے چار کروڑ امریکی طلبا (44 ملین) میں سے 10 فیصد سے زائد ایسے بھی ہیں، جو کبھی اپنے ذمے یہ قرضے واپس کرتے ہی نہیں۔‘‘
ساتویں جماعت میں پڑھنے والی شیریں اور دسویں کلاس میں پڑھنے والے ان کے بھائی حسن نے کراچی کی سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے اسکول کھولا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن ہزاروں بچوں کے لیے سڑکیں ہی ان کا گھر ہیں۔
امریکا میں طلبہ کو جاری کیے گئے ایسے قرضوں میں سے 90 فیصد واقعات میں مالیاتی ضامن ریاست ہوتی ہے۔ وہ طلبا و طالبات جو اپنے قرضے واپس نہیں کر سکتے، ان کی مدد حکومت ٹیکس دہندگان کی ادا کردہ رقوم سے کرتی ہے۔
اسی لیے ان تعلیمی قرضوں کی 1500 ارب ڈالر کی مجموعی مالیت کے سبب اور طلبہ کی اوسط مالی حالت کے پیش نظر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا یہ امریکی طلبہ اپنے ملک میں لیہمن برادرز کی طرح کے ایک نئے شدید مالیاتی بحران کا سبب بن جائیں گے؟
یہ ممکنہ مالیاتی بحران 2008ء کے ان حالات سے زیادہ مختلف شاید نہ ہو، جب ملکی پراپرٹی مارکیٹ میں جیسے ایک بھونچال آ گیا تھا، امریکی سرمایہ کاری بینک لیہمن برادرز دیوالیہ ہو گیا تھا اور کھربوں ڈالر کے نقصانات کا باعث بننے والے ایک تباہ کن مالیاتی بحران نے امریکا اور اس کی وجہ سے عالمی معیشت کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔