واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت اور کئی امریکی ریاستوں نے آن لائن سرچ کے شعبے میں ملکی کمپنی گوگل کی مبینہ کاروباری اجارہ داری کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ گوگل پر اپنے حریف اداروں کو نیچا دکھانے کے لیے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دنیا کی بہت بڑی بڑی اور انتہائی کامیاب کمپنیوں میں شمار ہونے والے ادارے گوگل کے خلاف یہ مقدمہ امریکی محکمہ انصاف اور امریکا کی گیارہ مختلف ریاستوں کی طرف سے ملک کے اینٹی ٹرسٹ قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کی وجہ سے منگل بیس اکتوبر کو دائر کیا گیا۔
اس مقدمے میں گوگل پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے آن لائن سرچ انجنز کی مارکیٹ میں اپنی انتہائی غالب پوزیشن کو اپنے حریف اداروں کو نیچا دکھانے کے لیے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعمال کیا۔ فوری طور پر گوگل نے اس پیش رفت پر اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
گوگل کے سو فیصد ملکیتی حقوق ‘ایلفابیٹ انکارپوریٹڈ‘ نامی کمپنی کے پاس ہیں۔ ‘ایلفابیٹ‘ کا تو ذکر ہی کیا، خود گوگل اتنی بڑی کمپنی ہے کہ دنیا بھر میں فعال ادارے کے طور پر جہاں کہیں بھی لفظ انٹرنیٹ لفظ بولا جاتا ہے، وہیں پر ساتھ ہی گوگل کا نام بھی آتا ہے۔ یہاں تک کہ گوگل کے ذریعے کسی بھی آن لائن سرچ کے لیے عام صارفین ایک دوسرے کو یہ نہیں کہتے کہ کوئی بھی معلومات گوگل پر تلاش کر لیں، بلکہ اس کے لیے کہا جاتا ہے، ”گوگل کر لیں۔‘‘
گوگل کاروباری حوالے سے اتنی کامیاب ہے کہ 2019ء میں اس امریکی کمپنی کو 162 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی، جو یورپی یونین کے رکن ملک ہنگری کی سال بھر کی مجموعی قومی آمدنی سے بھی زیادہ بنتی تھی۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں، جب اگلے امریکی صدارتی الیکشن کے انعقاد میں تقریباﹰ دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں، امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے دائر کیے گئے اس مقدمے کو ایک سیاسی چال بھی کہا جا رہا ہے۔
چند ماہرین اس اقدام کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی انتخابی وعدوں کا حصہ بھی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ وہ ماضی میں کئی بار اپنے حامیوں کو یہ یقین دہانیاں کرا چکے ہیں کہ وہ ان بڑی بڑی کمپنیوں کو جواب دہ بنائیں گے، جو مبینہ طور پر امریکی قدامت پسند ووٹروں کی رائے کو دباتی ہیں۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کی کل 50 میں سے جو 11 ریاستیں اس مقدمے میں ملکی محکمہ انصاف کی ہم نوا بنی ہیں، ان سب کے اسٹیٹ اٹارنی جنرل اپنی سیاسی سوچ اور ترجیحات میں صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں یا اس کے حامی ہیں۔
اس سلسلے میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو چند ترقی پسند ڈیموکریٹ ارکان کانگریس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مثال کے طور پر امریکی سینیٹ کی خاتون رکن الزبتھ وارن تو #BreakUpBigTech کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے کئی بار یہ مطالبہ بھی کر چکی ہیں کہ بڑے بڑے ٹیکنالوجی اداروں کے خلاف ‘فوری اور جارحانہ ایکشن‘ کی ضرورت ہے۔
گوگل کے خلاف کاروباری اجارہ داری کے الزام میں اب دائر کیے جانے والے مقدمے سے قبل اس بات کو ایک سال ہو چکا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف اور امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے چار بہت بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف اینٹی ٹرسٹ چھان بین بھی شروع کر دی تھی۔ یہ چار امریکی کمپنیاں ایمیزون، ایپل، فیس بک اور گوگل تھیں۔
جس طرح ایک مقدمہ گوگل کے خلاف اب امریکا میں دائر کیا گیا ہے، اسی طرح کے اقدامات کا ماضی میں اس امریکی کمپنی کو اپنے خلاف بیرون ملک بھی سامنا رہا ہے۔
مثال کے طور پر 2019ء میں یورپی یونین نے گوگل کو اس لیے 1.7 بلین ڈالر جرمانہ کر دیا تھا کہ تب گوگل نے مختلف ویب سائٹس کی طرف سے اس ادارے کے حریف اداروں کو اشتہار دینے والی کمپنیاں تلاش کرنے کے عمل میں رکاوٹیں ڈالی تھیں۔
اس کے علاوہ 2017ء میں گوگل کو یورپی یونین نے اس لیے 2.6 بلین ڈالر جرمانہ کیا تھا کہ گوگل اپنے سرچ انجن کے ذریعے صارفین کو مختلف نتائج دکھانے میں اپنے ہی شاپنگ بزنس کو ترجیح دیتی تھی۔
اس طرح گوگل کو اپنے اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنے والے حریف اداروں کو بلاک کرنے کی کوشش کرنے پر 2018ء میں بھی 4.9 بلین ڈالر جرمانہ کیا گیا تھا۔