واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ پومپیو نے یہ بات روسی صدر پوٹن اور دیگر روسی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد کہی۔ کریملن کے مطابق امریکا ایران کو اشتعال دلا رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے منگل چودہ مئی کے روز روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور دیگر اعلیٰ روسی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں واشنگٹن اور تہران کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث پائے جانے والے روسی خدشات ختم کرنے کی کوشش کی۔ حالیہ دنوں کے دوران امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی میں اضافے کے حوالے سے کئی ممالک اور ماہرین کو اندیشہ ہے کہ مزید شدت کی صورت میں یہ کشیدگی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ ایران خطے میں امریکی تنصیبات اور مفادات کو نشانہ بنا سکتا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے کیے گئے حالیہ اقدامات ایسے ہی کسی ممکنہ حملے کا جواب دینے کے لیے ہیں۔ ایران سے لاحق خطرے کے بارے میں واشنگٹن کے اتحادی ممالک کے علاوہ روس بھی امریکی نقطہ نظر سے متفق دکھائی نہیں دیتا۔
مائیک پومپیو نے اپنے دورہ روس کے دوران ان معاملات پر صدر پوٹن اور روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف سے گفتگو کی۔ بند کمرے میں گفگتو کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا، ’’ہم اصولی طور پر ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ لیکن ہم نے ایرانیوں پر واضح کر دیا ہے کہ اگر امریکی مفادات پر حملہ کیا گیا تو ہم بہرصورت اس کا مناسب جواب دیں گے۔‘‘
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
امریکا کا دعویٰ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بھیجے جانے والے بی باون امریکی بمبار طیارے بھی ممکنہ ایرانی حملوں کا جواب دینے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہو جانے اور بعد ازاں ایران کے خلاف معاشی پابندیاں سخت تر بنانے کے فیصلوں کے بعد پائی جانے والی کشیدگی میں ان امریکی اقدامات سے مزید اضافہ ہوا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایران کے بارے میں امریکی مندوب اور امریکی وزیر خارجہ کے مشیر برائن ہُک کا کہنا تھا، ’’پر امن مشرق وسطیٰ یورپ کے مفاد میں بھی ہے۔ ایران حملوں کی دھمکیاں دیتا رہا ہے تو ہم نے دفاعی اقدامات کیے ہیں۔‘‘ ہُک کا مزید کہنا تھا، ’’اب ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے کہ پرامن ایران کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن کا تصور کرنا ہی ناممکن ہے۔ اسی لیے ہم ایران سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی انقلابی سوچ کم کرے اور ایک عام ملک کی طرح کا طرز عمل اختیار کرے۔‘‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ روس ایران کا سب سے اہم حمایتی ہے۔ کریملن کے مطابق موجودہ کشیدگی کی ذمہ داری واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد آج پندرہ مئی بروز بدھ کریملن کے ترجمان دیمیتری پیشکوف نے کہا کہ مائیک پومپیو کی یقین دہانیوں کے باوجود کشیدگی میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ پیشکوف نے ایرانی اقدامات کو بھی افسوس ناک قرار دیا لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا ایران کو اشتعال دلا رہا ہے۔ کریملن کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی پالیسی‘ کارگر ثابت نہیں ہو گی۔