واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے ایران میں حکومت مخالف تحریک کے دوران میں مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور ان کے انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزام میں وزیر سراغرسانی محمود علوی سمیت بعض سینیر عہدے داروں اور رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای سے وابستہ ایک فاؤنڈیشن کے خلاف نئی پابندیاں عاید کردی ہیں۔
محمود علوی پر نومبر 2019ء میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے شرکاء کے خلاف خونین کریک ڈاؤن کے لیے اپنی وزارت کو استعمال کرنے کا الزام ہے۔امریکی وزیر خزانہ اسٹیون نوشین نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر الزام عاید کیا ہے کہ ’’وہ اپنی ’’بنیاد مصطظفان فاؤنڈیشن‘‘ کو اپنے اتحادیوں میں خیرات کے نام پر رقوم بانٹنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ امریکا ایران کے ان بنیادی عہدے داروں اور آمدن پیدا کرنے کے ذرائع کو ہدف بناتا رہے گا جن کی بدولت ایرانی نظام نے اپنے ہی عوام کے خلاف جبر واستبداد کو جاری رکھا ہوا ہے۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی مہم پر عمل پیرا ہے اور اس نے مئی 2018ء میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبرداری کے بعد سے سخت اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس مہم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ نئے مشرق اوسط کی تشکیل کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی مہم کا حصہ ہے۔اس دباؤ میں کمی ایک خطرناک انتخاب ہوسکتا ہے۔اس صورت میں خطے میں قیام امن کے لیے نئی شراکت داری کم زور پڑے گی اور اس سے صرف اور صرف ایران ہی مضبوط ہوگا۔‘‘
انھوں نے کہا کہ اب ہم غلط اطلاعات پھیلائے جانے کی بھی توقع کرتے ہیں اور ایسی رپورٹس سامنے لائی جائیں گی اور دلائل دیے جائیں گے جن میں یہ کہا جائے گا کہ امریکا کی ایران کے خلاف پابندیاں ناکام رہی ہیں لیکن ہمیں دھوکا نہیں دیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت ایرانی نظام کی گماشتہ دہشت گرد تنظیمیں اور شراکت دار نقدی کی بھیک مانگ رہے ہیں ،کفایت شعاری کے اقدامات کررہے ہیں اور بعض دہشت گرد جنگجوؤں کو بھی چلتا کررہے ہیں۔‘‘وہ لبنان میں ایران کی بغل بچہ تنظیم حزب اللہ اور عراق، یمن اور شام میں ایرانی ملیشیاؤں کا بالواسطہ حوالہ دے رہے تھے۔
مائیک پومپیو نے خبردار کیا ہے کہ’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے باقی دو ماہ کے دوران میں ایران کے خلاف مزید نئی پابندیاں عاید کی جائیں گی۔اس مقصد کے لیے ہم اپنے جوہری ، انسداد دہشت گردی اور انسانی حقوق کے حکام کو استعمال کریں گے اور ایرانی نظام کے تخریبی کردار کو ہدف بنانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘