امریکا نے ایرانی وزیر خارجہ پر بھی پابندیاں لگا دیں

Javad Zarif

Javad Zarif

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکا نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس امریکی اقدام نے ایران کے ساتھ مذاکرات کی امریکی خواہش پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

امریکا کی طرف سے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے خلاف پابندیوں کا نفاذ ایک انتہائی غیر معمولی اقدام ہے جس نے ایک ایسے وقت پر سفارتی روابط کی راہیں مزید محدود کر دی ہیں جب ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پہلے ہی عروج پر ہے۔

امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے بدھ 31 جولائی کو اعلان کیا گیا کہ محمد جواد ظریف پر پابندیاں اس لیے عائد کی جا رہی ہیں کیونکہ وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔

وزیر خزانہ اسٹیون منوچن کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ”جواد ظریف ایرانی سپریم لیڈر کے عاقبت نا اندیشانہ ایجڈے پر عمل پیرا ہیں اور وہ دنیا بھر میں ایرانی حکمرانوں کے بنیادی ترجمان ہیں۔ امریکا ایرانی حکمرانوں کو یہ واضح پیغام بھیج رہا ہے کہ ان کا حالیہ رویہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

’’محمد جواد ظریف پر پابندیاں اس لیے عائد کی جا رہی ہیں کیونکہ وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔‘‘

ان امریکی پابندیوں کے تحت ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے امریکا کے میں موجود اثاثوں کو منجمد کر دیا جائے گا اور ساتھ ہی امریکی ادارے اب ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی کاروبار یا لین دین نہیں کر سکتے۔ ان پابندیوں کی ممکنہ زد میں ایسے غیر ملکی ادارے بھی آئیں گے جو ان امریکی پابندیوں کے برخلاف ظریف کے ساتھ مالیاتی روابط رکھیں گے۔

یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا ان پابندیوں کے بعد محمد جواد ظریف نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے صدر دفاتر تک رسائی کے قابل ہوں گے یا نہیں۔ خیال رہے کہ واشنگٹن حکومت ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ان کی اقوام متحدہ آمد و رفت کو روک نہیں سکتی، تاہم ان کی نقل کو حرکت کو محض وہاں تک محدود رکھ سکتی ہے۔

وزیر خزانہ اسٹیون منوچن کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکا ایرانی حکمرانوں کو یہ واضح پیغام بھیج رہا ہے کہ ان کا حالیہ رویہ ناقابل قبول ہے۔

محمد جواد ظریف نے ان پابندیوں کا ردعمل اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں ظاہر کیا ہے: ”مجھے پابندیوں کا نشانہ بنانے کی امریکی وجہ کہ میں دنیا بھر میں ایران کا اہم ترین ترجمان ہوں، کیا یہ حقیقت واقعی تکلیف دہ ہے؟ اس کا مجھ پر یا میرے خاندان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ میری ایران سے باہر کوئی جائیداد یا مفادات نہیں ہیں۔ اپنے ایجنڈا کے خلاف مجھے اس طرح کا انتہائی بڑا خطرہ سمجھنے پر آپ کا شکریہ!‘‘

ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف امریکی پابندیاں دراصل امریکا کی ایران کے خلاف ‘زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کی مسلسل جاری پالیسی کا حصہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہونے کے فیصلے کے بعد سے ایران کےخلاف امریکی پابندیاں سخت سے سخت کیے جانے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور یہی معاملہ ان دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔