امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کے بعد تہران، شام اور وینزویلا کو بھی تیل فروخت نہیں کرسکے گا۔ اسے آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے صدر ٹرمپ کا ایک اور حربہ سمجھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس نئے فیصلے سے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو جانے کی صورت میں بھی جو بائیڈن کے لیے ایران کو تیل کی فروخت کی اجازت دینے کی کوشش فی الحال محدود ہوگئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے 2018ء سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جن کا مقصد تیل کی برآمدات کو روکنا اور امریکا کے حلیف ممالک سعودی عرب اور اسرائیل کے اس علاقائی حریف کے مالی وسائل کے ذرائع کو مکمل طور پر بند کردینا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے پیر 26 اکتوبر کو اس نئے فیصلے کے تحت ایران کی سرکاری نیشنل ایرانین آئل کمپنی، ایران کی وزارت پٹرولیم اور نیشنل ایرانین ٹینکر کمپنی کا نام انسداد دہشت گردی اتھارٹی کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جس کے بعد نئی امریکی انتظامیہ کے لیے بھی ممکنہ طور پر اس فیصلے کو واپس لینے میں روکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے تینوں ایرانی شعبوں کو اس کے پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے ساتھ جوڑ کر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکا، القدس فورس کو پہلے ہی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ القدس کے کمانڈر قاسم سلیمانی اس سال جنوری میں بغداد ہوائی اڈے کے قریب ایک امریکی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ نئی پابندیاں ایرانی تیل کے چند بچے کھچے خریداروں کے لیے انتباہی پیغام ہونا چاہیے۔
پومپیو نے اپنے بیان میں مزید کہا، ”یہ پابندیاں ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لیے ایک اہم قدم ہیں تاکہ ہمسایوں کو دھمکانے اور مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی اس کی صلاحیت کو محدود کیا جا سکے۔”
ایران کے وزیر تیل بیژن نامدار زنگنہ نے پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”واشنگٹن کی جانب سے خام تیل کی ایرانی برآمدات کو صفر پر لانے میں ناکام ہوجانے کے بعد یہ امریکا کی طرف سے ایک اور کوشش کی گئی ہے۔”
زنگنہ نے، جنہیں امریکا نے ذاتی طور پر بھی نشانہ بنایا ہے، ٹوئٹر پر لکھا، ”میرے ایران سے باہر کوئی اثاثے نہیں جو پابندیوں کی زد میں آئیں۔ میں ایران کے لیے اپنی جان، مال اور عزت قربان کر دوں گا۔”
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکا کو پابندیاں لگانے کا عادی قرار دیا ہے اورمشورہ دیا کہ اسے یہ عادت چھوڑ دینی چاہیے۔
خیال رہے کہ اگر تین نومبر کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو یہ ان کا یرانی رہنماؤں پر یہ آخری وار ہو گا۔
اس ماہ کے اوائل میں بھی ٹرمپ انتظامیہ نے ایرانی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اس کے قومی بینکوں پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ جس کی وجہ سے بیرونی دنیا کے ساتھ اس کی بیشتر لین دین مشکل ہوگیا ہے۔
دریں اثنا ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اقو ام متحدہ کی 75ویں سالگرہ کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے خلاف اب تک آٹھ فوجی حملے کرچکا ہے جس کی وجہ سے 37 ملین افراد بے گھر ہوگئے اوراس ”غیرمعمولی انتہاپسندی” کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔
محمد جواد ظریف نے اقو ام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس عالمی ادارے کو امریکا کی جانب سے شروع کی جانے والی یک طرفہ جنگ کے خلاف متحد ہونے کے لیے اپنے عہد کا اعادہ کرناچاہیے۔