امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے اس برس کے اواخر تک عراق میں امریکی عسکری مشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم امریکا انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنا تعاون جاری رکھے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ اس برس کے اواخر تک امریکا عراق میں بھی اپنا جنگی مشن ختم کر دے گا جس کے بعد لڑائی میں حصہ لینے کے بجائے امریکا عراقی سکیورٹی فورسز کو صرف تربیت اور صلاح و مشورہ فراہم کرے گا۔
پیر 26 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی سے ملاقات کے بعد جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ عراق میں اب بھی موجود 2500 امریکی فوجیوں کے لیے، ”یہ ایک نیا مرحلہ” ہوگا۔ انہوں نے کہا، ”عراق میں اب ہمارا کردار… دستیابی، تربیت جاری رکھنے، امداد پہنچانے، مدد کرنے اور جب کبھی بھی اسلامک اسٹیٹ اپنا سر اٹھائے اس سے نمٹنا ہو گا، لیکن اس برس کے اواخر تک ہم لڑائی کے میدان میں نہیں ہوں گے۔”
عراق میں مبینہ اسلامی شدت پسند تنظیم داعش سے نمٹنے میں امریکی افواج نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ امریکا نے جس نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے اس میں عراق سے فوجی انخلا کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ وہ موجود رہے گی تاہم جنگی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے عراقی فورسز کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ لاجیسٹکس اور صلاح و مشورہ فراہم کرے گی۔
اس اعلان سے قبل ہی پیر کے روز ایک سینیئر امریکی افسر نے بتایا تھا کہ امریکا عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنا جنگی مشن ختم کر رہا ہے اور اس برس کے اختتام تک اس کا رول محض ایک مشیر اور تربیت فراہم کرنے کا رہ جائے گا۔
عراق میں سرگرم ایرانی حمایت یافتہ مسلح جنگجو گروپوں کا وزیر اعظم مصطفی القدیمی پر اس بات کا زبردست دباؤ رہا ہے کہ عراقی سر زمین پر امریکی افواج کی موجودگی جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔ عراق میں عام انتخابات سے تین ماہ قبل یہ اہم فیصلہ سامنے آیا ہے۔
عراق میں کئی سالوں کی جنگ، شورش، بدعنوانی اور غربت نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ مناسب انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کے خلاف اکثر مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ بجلی کا بار بار جانا معمول کی بات ہے اور ایک ایسے وقت جب موسم گرما میں گرمی کی شدید لہر جاری ہے زندگی بدتر ہو کر رہ گئی ہے۔
عراق میں سیاسی حلقے اس فیصلے کو وزیر اعظم القدیمی کی ان کوششوں کے حصہ مانتے جس کی مدد سے وہ تہران حامی گروپوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے گروپ عراق میں امریکی مفادات پر بھی حملے کرتے رہے ہیں تاہم امریکا نے جوابی کارروائی میں انہیں بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ عراق پر ایران کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اس لیے بائیڈن انتظامیہ عراق کو پوری طرح سے چھوڑ نہیں سکتی۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک سے وابستہ حامدی مالک کا کہنا تھا، ”ایسا نہیں لگتا ہے کہ عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کوئی ڈرامائی کمی آنے والی ہے۔”
بعض ماہرین کے مطابق وائٹ ہاؤس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات سے بغیر کسی حقیقی تبدیلی کے یہ دکھانا مقصود تھا کہ گھریلو سطح پر مصطفی القدیمی کی پوزیشن بہتر ہے۔
امریکا نے عراق میں اپنی عسکری سرگرمیوں کو بند کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب افغانستان میں جاری بیس سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے مکمل فوجی انخلا کا عمل جاری ہے۔ تاہم مکمل انخلا سے قبل ہی طالبان جنگجوؤں نے کافی پیش قدمی کر لی ہے۔
ایک سینیئر افسر کا کہنا تھا کا عراقی فوجی جنگی امتحان سے گزر چکے ہیں اور وہ اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم القدیمی بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ عراقی فورسز بذات خود ملک کی سکیورٹی سنبھالنے کے لائق ہیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق اسلامک اسٹیٹ جیسی شدت پسند تنظیم خطے کے لیے اب بھی ایک شدید خطرہ بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی بغداد کے ایک بازار میں سڑک کنارے نصب ایک بم دھماکے میں 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔