امریکی قیادت میں ابھرتے نئے چار ملکی اتحاد ’کوآڈ‘ کا درپردہ ہدف چین

Meeting

Meeting

ٹوکیو (اصل میڈیا ڈیسک) نئے امریکی صدر جو بائیڈن جمعہ بارہ مارچ کو بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم سے پہلی مرتبہ مشترکہ بات چیت کریں گے۔ یہ ملاقات ایسے نئے چار ملکی اتحاد کے قیام کی کوششوں کا حصہ ہے، جس کا ہدف چین قرار دیا جا رہا ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں ٹوکیو میں ہونے والے ’کُوآڈ‘ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے شرکاء کی جاپانی وزیر اعظم سُوگا، درمیان میں، کے ساتھ ایک تصویر
گزشتہ برس اکتوبر میں ٹوکیو میں ہونے والے ’کُوآڈ‘ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے شرکاء کی جاپانی وزیر اعظم سُوگا، درمیان میں، کے ساتھ ایک تصویر

جو بائیڈن سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکا کے بحر ہند اور بحر الکاہل کے خطوں کی بڑی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بہت زیادہ زیر و بم کا شکار ہو گئے تھے۔ بائیڈن اپنے اس عزم کو اظہار کر چکے ہیں کہ وہ ان ممالک کے ساتھ امریکا کے قریبی تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں۔

جمعہ 12 مارچ کو ہونے والی بائیڈن کی یہ بات چیت امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کی اعلیٰ ترین سطح کی ایسی سیاسی مکالمت ہو گی، جو اپنی نوعیت کی اولین مشترکہ کاوش ہو گی۔ وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کے مطابق یہ ملاقات صدر بائیڈن کے لیے ان کی پہلی کثیر الفریقی سمٹ بھی ہو گی۔

مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا، ”صدر بائیڈن نے اس آن لائن ملاقات کو اپنی اولین کثیر الفریقی مصروفیات کا حصہ بنایا اور یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ انڈو پیسیفک خطے میں امریکا کے قریبی اتحادی ممالک کے ساتھ گہرے تعاون کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔‘‘

امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کی اس سربراہی بات چیت کو اس میں شامل چار ممالک کی وجہ سے غیر رسمی طور پر Quad یا ‘چار‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مکالمت ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے، جب چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا سبب یہ تاثر ہے کہ بیجنگ تجارت اور سلامتی کے شعبوں میں خاص طور پر انڈو پیسیفک خطے میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ میں مسلسل اضافے کی عملی کوششیں کر رہا ہے۔

اسی لیے کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن، نئی دہلی، ٹوکیو اور کینبرا کا یہ تیزی سے تشکیل پاتا اتحاد دراصل بیجنگ کو ‘لگام ڈالنے‘ کی سیاسی کوشش ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے یہ بات کھل کر نہیں کی جاتی مگر ماہرین کے مطابق اس ‘کُوآڈ‘ کا ہدف چین ہی ہے۔

آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کے مطابق، ”یہ ملاقات خطے کے لیے تاریخی لمحہ ہو گی کیونکہ اس کے ذریعے دنیا کو انڈو پیسیفک کے علاقے کی خود مختاری اور آزادی سے متعلق ایک واضح پیغام دیا جا سکے گا۔‘‘

اس چار ملکی سمٹ میں امریکی صدر جو بائیڈن کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، جاپانی وزیر اعظم یوشی ہِیڈے سُوگا اور آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن حصہ لیں گے۔

اس سمٹ کی تیاری کے لیے ان چاروں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ایک ملاقات اٹھارہ فروری کو ہوئی تھی۔ تب ان وزراء نے میانمار میں ملکی فوج کی طرف سے بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضے کے حوالے سے مطالبہ کیا تھا کہ میانمار میں فوری طور پر جمہوریت بحال ہونا چاہیے۔

اس ملاقات کے بعد چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ نے صحافیوں کے ساتھ مشترکہ بات چیت میں کئی امور پر اظہار رائے کیا تھا مگر چین کا کھل کر نام کسی نے بھی نہیں لیا تھا۔

دوسری طرف چین اس ‘کُوآڈ‘ کے بارے میں اس لیے تشویش کا اظہار کر چکا ہے کہ بیجنگ کے بقول ایسا کرتے ہوئے یہ چاروں ممالک ایشیا میں چینی مفادات کے خلاف ‘گروہ‘ کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

ٹوکیو میں جاپانی حکومت کے مطابق ملکی وزیر اعظم سُوگا نے گزشتہ ہفتے بھارتی ہم منصب مودی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی اور اس دوران اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

ٹوکیو حکومت کے مطابق وزیر اعظم سُوگا نے اس بارے میں واضح عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ بیجنگ حکومت بحیرہ مشرقی چین اور بحیرہ جنوبی چین میں موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے کی یک طرفہ کوششیں کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ سُوگا کے مطابق چینی صوبے سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں انسانی اور شہری حقوق کے احترام کی صورت حال بھی گہری تشویش کا باعث ہے۔