امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اگر میانمار کی فوجی قیادت اپنے اختیارات سے ‘دست بردار‘ نہیں ہوئی اور جمہوری طورپر منتخب رہنماوں کو رہا نہ کیا تو امریکا ایک ارب ڈالر کے اثاثوں تک ان کی رسائی روک دے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز ایک حکم نامہ جاری کرکے میانمار کی فوجی حکومت پر پابندیاں عائد کردیں، جس نے اس ماہ کے اوائل میں بغاوت کرکے ملک میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔
بائیڈن نے کہا”فوج اس اقتدار سے دست بردار ہوجائے جس پر اس نے قبضہ کیا ہے اور برما کے عوام کے تئیں احترام کا مظاہرہ کرے۔” برما، میانمار کا پرانا نام ہے۔
انہوں نے مزید کہا”میں برمی فوج سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آنگ سان سوچی اور صدر ون مائنٹ سمیت گرفتار دیگر تمام جمہوری سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو فورا ً رہا کرے۔”
بائیڈن کے حکم کے بعد میانمار کے فوجی جرنیلوں کی امریکا میں موجود ایک ارب ڈالر تک رسائی نہیں ہوسکے گی۔ پابندیوں کے متعلق مزید تفصیلات اس ہفتے بعد میں جاری کی جائیں گی۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ان پابندیوں کے تحت ”بغاوت کی رہنمائی کرنے والے فوجی رہنماوں، ان کے تجارتی مفادات اور ان کے قریبی رشتہ داروں” کو ہدف بنا یا گیا ہے۔
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
بائیڈن نے وائٹ ہاوس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”ہم مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں اوران اقدامات میں دیگر ملکوں کو بھی شامل کرنے کے لیے اپنے بین الاقوامی شرکاء کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ نئی پابندیوں سے میانمار کی فوج امریکی اثاثوں سے ہونے والے فائدے سے محروم ہوجائے گی لیکن صحت کی دیکھ بھال اور سول سوسائٹی گروپوں کی مدد کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بین الاقوامی ردعمل میانمار کے فوجی سربراہ جنرل منگ آنگ لینگ سمیت کئی اہم فوجی رہنماوں پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی وجہ سے سن 2019 سے ہی امریکی پابندیاں عائد ہیں۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار حکومت کی کارروائی کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
امریکا نے 1998میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے بھی میانمار کی فوج پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔
جمہوری طور پر منتخب حکومت کو برطرف کرکے فوج کے اقتدار پر قبضہ کرلینے کے تازہ واقعے کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی ہے تاہم دیکھنا ہوگا کہ نئی پابندیوں کا کیا اثر پڑتا ہے۔
وائٹ ہاوس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے بائیڈن کے اعلان سے قبل کہا تھا”اس میں دو رائے نہیں کہ میانمار کے فوجی اقتدار کے خلاف ایک مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔”
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے شرکاء اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر برمی جنرلوں پر مزید دباو ڈال سکتا ہے۔
اس دوران میانمار کی صورت حال پر غور کرنے کے لیے اقو ام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے جمعرات 11 فروری کو ایک خصوصی اجلاس طلب کیا ہے۔