سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن عزیز پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور سالمیت کیلئے اٹھائے جانیوالے ہر اقدام کو دلی طور پر سراہنا اور اسکی تائید کرنا بھی ”محب وطن ”ہونے کی نشانی ہے ۔ خیرکسی کے نہ ماننے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے” دورہ امریکہ” نے پوری دنیا میں ”دھوم ”مچا دی ہے ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کی اکثریت اس دورہ امریکہ کو ایک بہت ہی کامیاب دورہ قرار دے رہی ہے ۔اور یوں وزیر اعظم عمران خان کے اس دورہ امریکہ نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے ۔امریکہ کی تاریخ میں کسی غیر ملکی حکومتی سربراہ کیلئے واشنگٹن ڈی سی کے کیپٹل ارینا ون میں منعقدہ پہلا بڑا سیاسی ”اجتماع”تھا ۔ وائس آف امریکہ کے مطابق اس اسٹیڈیم میں کل بیس ہزار سیٹیں موجود ہیں اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی امریکہ آمد پر تقریباً اٹھارہ ہزار افراد نے شرکت کی تھی ۔ مگر وزیراعظم عمران خان کی امریکہ آمد پر بیس ہزار سیٹیں”فل” اور ہال سمیت اسٹیڈیم سے باہر بھی پاکستانیوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔
سب سے پہلے تو وزیراعظم عمران خان نے سرکار ی خزانے پر بے جا بوجھ ڈالتے ہوئے ”جہاز”بھر کے وفد ساتھ لیجانے کی بجائے” پرائیویٹ فلائٹ” میں سفر کرنے کو ترجیح دیکر پاکستانی عوام کے دل جیت لئے ۔ اور پھروزیر اعظم پاکستان عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے جس دلیری اور حوصلہ مندی سے پاکستا نی اور کشمیری عوام کا مقدمہ پیش کیا،ماضی کے ادوار میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ اس گرمجوش اور فراخدلانہ ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے موثر حل کیلئے بھارت اور پاکستان کے درمیان بطور ”ثالث ”کردار ادا کرنے کی بیان پرپاکستان کے روایتی ”حریف”بھارت میں ”صف ماتم ”بچھ گئی،کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھاکہ مسئلہ کشمیر پر ”ثالثی”کیلئے انہیں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے بھی کہاگیا ہے ، جس پر بھارتی میڈیا چِلاتے چِلاتے مختلف حربوں اور بیان بازیوں پر اتر آیا، بھارتی حکومت اور بھارتی وزیر خارجہ کی طرف سے امریکی صدر کے اس بیان پر شدید تنقید کی اور کہاکہ بھارتی وزیراعظم کی طرف سے امریکی صدر کو ”ثالثی ”کیلئے نہیں کہا گیا۔ان وضاحتوں اور شدید تنقید سے بھارت کا ایک اور ”مکروہ چہرہ”کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا ہے۔یعنی بھارت کشمیر پر اپنا تسلط اور نہتے کشمیریوں پر جاری ظلم و ستم کو کسی صورت بند نہیں کرنا چاہتا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی امریکہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر بطور ”ثالث ”کردار ادا کرنے کی پیشکش کی گئی مگر بھارت نے ہمیشہ ”راہ فرار ”اختیار کی ۔ اگر اب بھی بھارت جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی اس” بمپر آفر ”پر آمادہ ہوجائے تو ”آزادی کشمیر ”سمیت پوری خطے کے ”امن ”کو ایک نئی تقویت بھی ملے گی اور یہی پاکستان کی خارجی پالیسی کی ایک بہت بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی بائیس کروڑ عوام سمیت کشمیربھائیوں کی ”دِلوں” کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے اس دورہ امریکہ میں ”مسئلہ کشمیر”کو جس قدر اولین ترجیح دی ہے، ان کے اس عظیم اقدام نے کشمیریوں کے جسم میں ایک نئی ”جان”ڈال دی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اس اہم فریضے کی ادائیگی پر ”خیر مقدم” کرتے ہوئے آزادی کشمیر کے عظیم وبزرگ رہنما اور آل پاڑٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کہاہے کہ ‘میں اپنی زندگی میںپہلا ”لیڈر ”دیکھ رہاہوں کہ جس نے ہم نہتے کشمیریوں کیلئے آواز اٹھائی’۔ساتھ ہی سید علی گیلانی نے یہ بھی کہاکہ ‘خان صاحب ”کشمیر”جل رہاہے صرف ”بات چیت”سے ہی کشمیر”آزاد”ہو سکتا ہے۔
جبکہ بھارتی حکومت نہیں چاہتی کہ ”پاکستان ”کشمیریوں کیلئے ”آواز”اٹھائے۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دروہ امریکہ نے پوری دنیا میں ایک ”ہلچل ”مچادی ہے اور اس دورے کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے ۔پاکستان کی سیاسی اپوزیشن جماعتیں جو وزیراعظم پاکستان عمران خان کو کبھی ”سلیکٹڈ”تو کبھی ”نالائق اعظم ”گردانتے ہیں وہیں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عمران خان کو ”گریٹ لیڈر”قرار دینا ہماری اپوزیشن جماعتوں کیلئے بھی ”لمحہ فکریہ” ہے ۔ ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے روح رواں بلاول بھٹو نے بھی اپنے ”محب وطن ”ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ پر ٹویٹ کرتے اور مثبت پیغام دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی غیر جمہوری سیاست اور مہلک پالیسیوں پر”تحفظات” کے باوجود عالمی سطح پر حکومتی اقدامات کی غیرمشروط ”حمایت ”کا ”اعلان ”کیا۔
محترم قارئین!بلاشبہ وطن عزیزپاکستان ماضی میں بھی امریکہ کا بہت بڑا ”اتحادی ”رہاہے ۔ اور اپنی اس امریکی بے لوث”دوستی”کو نبھانے اور ”دہشت گردی” کے خاتمے سمیت خطے کو ”پرُامن” بنانے کیلئے وطن عزیزپاکستان نے بے شمار ”قربانیاں ” دی ہیں ۔لیکن ہمیشہ امریکہ کی طرف سے ان قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرنے کی بجائے ”ڈومور”کہہ کرخاموش کردیا گیا۔آج پھر امریکہ کے دل میں پاکستان کیلئے ”محبت ”جاگ اٹھی ہے اور وہ افغانستان سے نکلنے کیلئے پاکستان کی فی الفور اور بھرپور مدد کا خواہاں ہے ۔اگر وہ حقیقی معنوں میں افغانستان سمیت خطے میں ”امن ”کا خواہاں ہے تو پھر” مسئلہ کشمیر ”کے موثر حل کیلئے ”عملی کردار”ادا کرنا ہوگا اور بھارت کو بھی اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا ، دنیا جانتی ہے کہ بھارت اس ”امریکی ثالثی ” سے اپنی ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ”راہ فرار”اختیار کریگا۔کیونکہ بھارت ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس کے موثر حل میں بذات خود بہت بڑی ”رکاوٹ”ہے ۔اور بات بھی ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے ساتھ ساتھ اب تو مسلمان بھارتی شہریوں پر بھی ظلم و ستم کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں ۔مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھارت کی طرف سے ”راہ فرار”اختیار کرنے پر بھی اپنی پالیسی واضع کرنا ہوگی۔کیونکہ امریکہ اور پاکستان بہت دیر بعد ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوئے ہیں۔
پاک امریکہ دوستی کی ماضی میں دوری سے پاکستان اور امریکہ نے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا ہوگا جس پر دونوں ممالک کو آج ہی سے انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا تاکہ مستقبل قریب میں یہ دوستی ”مفادات ”کی فہرست سے نکل کر ایک” مثالی دوستی” کی صورت اختیار کرسکے ۔ مگر میری نظر میں شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی معاملے سے کہیں زیادہ ضروری معاملہ ”مسئلہ کشمیر”کے موثر حل کا ہے جہاں مسلط بھارتی فوج نہتے کشمیری مسلمانوں پر ”کیمیائی ہتھیار”استعمال کرکے انکی ”نسل کشی”کررہی ہے۔آخر میںوزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کو انکی پوری ٹیم کودلی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں پاکستانی عوام اور کشمیریوں بھائیوں کا” مقدمہ” بہت خوش اسلوبی سے لڑا۔ساتھ ساتھ وطن عزیز پاکستان کے فخر چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب ، ڈی جی آئی ایس پی آرجناب آصف غفور صاحب سمیت تمام” محب وطنوں” کو اس کامیاب امریکی دورے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو کہ اللہ رب العالمین کشمیری بھائیوں کوآزادی کی نعمت سے سرفراز فرمائے اور وطن عزیز پاکستان کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے۔آمین یا رب العالمین