واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان پارلیمان نے پولیس زیادتیوں اور نسلی نا انصافیوں کے خاتمے کے لیے محکمہ پولیس میں جامع اصلاحات کے لیے ایک نیا قانون بنانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے گھٹنوں کے بل اسی انداز میں جھکے، جس طرح پولیس کی تحویل میں ان کی موت ہو گئی تھی۔ ارکان نے پولیس کی زیادتیوں اور نسلی نا انصافیوں سے نجات کے لیے جس مجوزہ قانون کا مسودہ تیا رکیا ہے اس میں پولیس کوگردن پر سخت دباوا ڈالنے اور قانونی طور پر طاقت کے استعمال سے باز رہنے کی بات کہی گئی ہے۔ پولیس کی زیادتیوں کے شکار افراد کو متعلقہ افسران کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی اجازت دینے اور امریکی پولیس میں نسلی نا انصافیوں کے ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔
امریکی کانگریس میں سیاہ فاموں سے متعلق کمیٹی کی سربراہ کارین باس کا کہنا تھا، ”ایسا پیشہ جس میں آپ کو لوگوں کے قتل کرنے تک کا اختیار ہو، اس میں ایسے تربیت یافتہ افسران کی ضرورت ہے جو عوام کو جوابدہ ہوں۔” انہوں نے کہا کہ پولیس ایکٹ 2020 سے غلط پولیس آفیسرز کو جوابدہ بنایا جائے گا، کام کرنے کے طور طریقوں میں تبدیلیوں کے ساتھ ہی محکمہ پولیس اور کمیونیٹیز کے درمیان اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس بل میں ہجومی تشدد کے خلاف بھی وفاقی قانون بنانے کی بات کہی گئی ہے جو کافی دنوں سے کانگریس میں التوا کا شکار ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ریپبلکنز اس بل کی حمایت کریں گے یا نہیں۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ریپبلکنز کی اکثریت ہے اور دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد یہ قانون تبھی بن سکتا ہے جب صدر ٹرمپ بھی اس پر دستخط کردیں۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے متفق نہیں ہیں۔ اس بل کے سامنے آتے ہی مسٹر ٹرمپ نے اس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس برس تاریخ میں پہلی بار امریکا میں سب سے کم جرائم ہوئے ہیں، اور اب ریڈیکل لیفٹ ڈیموکریٹس، ”ہماری پولیس کے فنڈز روک کر انہیں بے یارومددگار چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ معاف کیجئے مجھے امن و قانون چاہیے۔”
جارج فلوئیڈ کی آخری رسومات منگل کے روز ادا کی جائیں گی۔ اس سے قبل پیر کو ان کی جسد خاکی آخری بار عوامی دیدار کے لیے ٹیکسس کے ہیوسٹن میں رکھی گئی ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے پہنچے
خیال رہے کہ 46 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کو ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر منییاپولس میں چار سفید فام پولیس والوں نے حراست میں لے کر انہیں سڑک پر پیٹ کے بل گرا دیا اور پھر ایک سفید فام پولیس اہلکار اپنے گھٹنے سے ان کی گردن پر پوری طاقت سے تقریبا ًنو منٹ تک دباؤ ڈالتا رہا۔ اس دوران فلوئیڈ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور وہ پولیس سے التجا کرتے رہے، ”پلیز، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔“ لیکن پولیس اہلکار نے ان کی ایک نہ سنی اور اس کارروائی کے چند منٹوں کے اندر جارج کا وہیں سڑک پر دم نکل جاتا ہے۔
ایک شخص نے پولیس کی ان زیادتیوں کی ویڈیو بنا لی تھی اور اس کے منظر عام پر آتے ہی مظاہرے شروع ہوگئے جو دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کی تمام ریاستوں میں پھیل گئے۔ ان مظاہروں کے پیش نظر ہی کئی ریاستوں میں پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے۔
جارج فلوئیڈ کی آخری رسومات منگل کے روز ادا کی جائیں گی۔ اس سے قبل پیر کو ان کی جسد خاکی آخری بار عوامی دیدار کے لیے ٹیکسس کے ہیوسٹن میں رکھی گئی ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے پہنچے۔
ادھر امریکی ریاست مینیسوٹا میں جس پولیس اہلکار کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کی جان گئی تھی ان کی پہلی بار مقامی عدالت میں پیشی ہوئی ہے۔ ان کے خلاف سیکنڈر لیول کے قتل کا کیس درج کیا گیا تھا۔ پولیس آفیسر ڈیرک شوائن جیل سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہوئے۔ ریاست کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے ڈیرک کی ضمانت کے لیے سوا گیارہ لاکھ ڈالر کی شرط رکھی ہے۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ کیس کی نوعیت ایسی ہے کہ ملزم کے جیل سے باہر آنے کے بعد فرار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ قتل کے مقدمے کے بعد ڈیرک کی یہ پہلی سماعت تھی اور اگلی سماعت 29 جون طے کی گئی ہے۔