اسلام آباد (جیوڈیسک) سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو بتادیا ہے کہ اس کی پالیسیاں خطے میں عدم استحکام پیدا کرسکتی ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹ کے قائمہ کمیٹی برائے خارجہ اور دفاع کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں ملک کو درپیش خارجی چیلنجز، بلوچستان میں ڈرون حملے اور دیگر امور پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران دفاعی حکام نے کمیٹی ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکا سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے معاہدے کے متعلق بتایا کہ کانگریس کا کہنا ہے کہ ٹیکس گزاروں کا پیسہ خرچ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، امریکا میں یہ صدارتی انتخابات کا وقت ہے اور اس وقت پینٹاگان اور وائٹ ہاؤس کانگریس کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتے۔
اجلاس کے دوران سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عالم خٹک نے کمیٹی کو بتایا کہ امریکا سے ایف سولہ طیاروں کی ڈیل کا باب بندہو چکا ہے، امریکا کاکہناتھا کہ پاکستان ادائیگی نیشنل فنڈسے کرے ،ہمارا موقف تھا کہ پاکستان صرف 39.2فیصد کل رقم سے اداکرے گا، اب پاکستان اردنی ایف سولہ طیارے خریدے گا، اردن سے طیارے بھی امریکہ کی مرضی سے ہی ملیں گے اور امریکا نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی ہے، روس اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ موجود ہے جس کے تحت فیفتھ جنریشن کے طیارے روس سے خریدنے پر غور کررہے ہیں، اس کے علاوہ طیاروں کی خریداری کے حوالے سے فرانس سے بھی بات کرچکے ہیں۔
سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کمیٹی کو بتایا کہ پاک امریکا تعلقات میں نشیب و فراز پاکستانی عوام اور قیادت کے لیے نئی بات نہیں، پاک امریکا کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں امریکا کا بھارت کو ترجیحی بنیادوں پر پسند کرنا، پاک چین آگے بڑھتی دوستی اور سی پیک منصوبہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ معاملات پر ہم امریکا کے ساتھ ہرگز تعاون نہیں کرسکتے جن میں ہماری خودمختاری اور سالمیت شامل ہے۔
سیکریٹری خارجہ نے مزید کہا کہ ہم نے رچرڈ اولسن کی سربراہی میں ملنے والے امریکی وفد سے کھل کربات کی ہے، امریکیوں کا کہنا ہے کہ ملا منصور امریکی افواج کے لئے خطرہ تھا، امریکیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ وہ بات چیت سے انکاری تھا، ہم نے وفد سے کہا کہ ملااختر منصور اگر مذاکرات حق میں نہیں تھا تو وہ انکاری بھی نہیں تھا ، ملا اختر منصور کی ہلاکت سے امن عمل کو دھچکہ لگا ہے، ہم نے امریکا سے کہا ہے کہ بتایا جائے امن عمل بات چیت سے بڑھانا ہے یا جنگ سے، امریکا نے ڈرون حملہ کرنے میں جلد بازی کی، اس نے جہاں 16 سال جنگ کو دیے وہیں 6 ماہ افغان امن عمل کو بھی دیتا۔ امریکی وفد نے اتفاق کیا کہ امن کے لئے مذاکرات ہی حل ہے۔
اعزاز چوہدری نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتاہے کیونکہ یہ خطے میں امن کے لئے ضروری ہے، یہ تاثر درست نہیں کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت پر پاکستان تاخیر سے جاگا ہے، گزشتہ برس جولائی میں امن مزاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے خبر پھیلائی گئی کہ ملا عمر کراچی میں انتقال کرگئے ہیں حالانکہ ملاعمر کبھی بھی کراچی نہیں آئے، وہ زابل میں رہے اور وہیں سپرد خاک کئے گئے ہیں۔م یڈیا میں خبریں ہیں کہ ایران داعش کے خلاف طالبان سے اتحاد کررہاہے، ہماری ایران سے بات ہوئی ہے کہ ملااخترمنصور ایران میں کیا کررہا تھا، اب ایرانی حکام اپنے ملک میں اس معاملے کی تحقیقات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ انگوراڈا چیک پوسٹ افغانستان کے حوالے نہیں کی جارہی ، پاکستان نے افغانستان کی حدود میں صرف تحفہ کے طور پر دروازہ تعمیر کیا گیا۔ وزیر اعظم نے افغان حکومت کے سخت بیانات کا جواب دینے سے روک رکھا ہے لیکن امریکا سے کہا گیا ہے کہ افغانستان کو ایسے بیانات دینے سے روکاجائے۔
سکریٹری خارجہ نے بتایا کہ ہم نے امریکا سے خاص طور پر بھارت کے حوالے سے پالیسیوں پر بات کی ہے اور امریکا کو بتادیا ہے کہ اس کی پالیسیاں خطے کے لئے عدم استحکام پیدا کرسکتی ہیں ، ہم نے ہر ایک کو آگاہ کردیا ہے کہ پاکستان اپنا میزائل پروگرام کسی صورت بند نہیں کرے گا، نیوکلیئر سپلائر گروپ پر بھی ہم نے خاموش سفارت کاری کی ہے۔ ہم نے امریکا سمیت دیگر ممالک کو بتادیاہے کہ سی پیک کسی ملک کے لئے خطرہ نہیں ہے، گوادر اور چاہ بہار کے درمیان کوئی اسٹرٹیجک نسبت نہیں، گوادر بندرگاہ کا پہلا فائدہ افغان صوبہ قندھار کو ہوگا۔