امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے پر زور دیا ہے اور اس دیرینہ تنازع کے دوریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
وہ فلسطینی صدر محمود عباس سے ٹیلی فون پر گفتگو کررہے تھے۔ان کا جنوری میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد فلسطینی صدر سے یہ پہلا رابطہ ہے۔انھوں نے غزہ پر اسرائیلی فوج کی تباہ کن بمباری اور اسرائیلی علاقوں پر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے راکٹ حملوں کے تناظرمیں تبادلہ خیال کیا ہے۔
فلسطینی خبررساں ایجنسی وفا کے مطابق ’’جوبائیڈن نے صدر محمود عباس کو بتایا ہے کہ امریکا خطے میں تشدد میں کمی کے لیے متعلقہ فریقوں سے بات چیت کررہا ہے۔‘‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’امریکا مشرقی القدس (یروشلیم) کے علاقے شیخ جرّاح سے فلسطینیوں کی (جبری) بے دخلی کا مخالف ہے۔‘‘
واضح رہے کہ شیخ جرّاح سے عرب خاندانوں کی جبری بے دخلی ہی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کا سبب بنی ہے۔اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے گذشتہ ہفتے ایک عدالت کے حکم پر ان فلسطینیوں کو ان کے آبائی مکانوں سے بے دخل کرنے کاعمل شروع کیا تھا۔اس کے ردِّعمل میں فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے مسجد اقصیٰ میں ان مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
غزہ کی حکمراں حماس نے الاقصیٰ میں فلسطینیوں پر تشدد رکوانے کے لیے اسرائیلی علاقوں کی جانب راکٹ حملوں کی دھمکی دی تھی۔اس کے ردعمل میں گذشتہ سوموار کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر تباہ کن بمباری شروع کردی تھی۔اس کے فضائی اور زمینی حملوں میں اب تک کم سے کم ڈیڑھ سو فلسطینی شہید اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔
اسرائیل ایک مرتبہ پھرغزہ پراپنی مسلح جارجیت کو حماس کے خلاف جنگ کا نام دے رہا ہے جبکہ اس کے لڑاکا طیاروں کی وحشیانہ بمباری اور میزائل حملوں میں عام فلسطینی کام آرہے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس صدر محمود عباس اور ان کے زیرقیادت فلسطینی اتھارٹی کو دیوار سے لگانے اور مقبوضہ بیت المقدس میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔فلسطینی اتھارٹی کا غربِ اردن میں بہت کم کنٹرول ہے جبکہ غزہ کی پٹی میں اس کابالکل اثرورسوخ نہیں ہے۔