ایک امریکی صدر نے پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دی تھی اس کے ہاتھوںتو ہماری بچت ہو گئی لیکن ہمارے حکمران ہمیں جیتی جان زبردستی پتھرکے دور میں دھکیلنے کیلئے بھرپور توانائیاں صرف کررہے ہیں شاید امریکی ایجنڈے کی تکمیل اس طرح ہونی ہے۔ موسم ِ گرما ہر سال اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گرہوتاہے یہ موسم عوام کی سختی اور کم بختی کا آئینہ دار ہوتاہے بجلی کی کمی اور اعلانیہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث شدید گرمی سے نہ صرف ہرسال درجنوں لوگ جان سے جانتے ہی بلکہ پہلے سے دم توڑتی معیشت کا پہیہ جام ہوجاتاہے یوں فاقوں سے بھی لوگ ہی مرتے ہیں لیکن کچھ حکمرانوںکی ترجیحات نرالی تھیں انہوںنے ترقی کا معیار میٹرو سمجھ لیا تھا یہی وجہ ہے پاکستان شاید دنیا کا ایک منفرد ملک سمجھا جانے لگا ہے جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف شہر شہر احتجاج ہوتاہے کبھی سوئی گیس نہ ملنے پر توڑپھوڑ ، کبھی سرکاری ملازمین ،ینگ ڈاکٹرز، بلائنڈ ملازمین، کبھی نرسوں،کلرکوں اورا سا تذہ کے اپنے مطالبات منوانے کیلئے سڑکوں پر مظاہرے اور اوپر سے سیاسی جلسے، جلوس ، ریلیاں۔۔۔ عوام کا سڑکوںپر آنے سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتاہے اور سرکاری املاک کا نقصان بھی ۔۔کبھی کبھی احتجاج میں شدت آ جائے تو واپڈا دفاتر کا جلائو گھیرائو، آنسو گیس پھینکی جاتی ہے ہوائی فائرنگ، بسا اوقات لوگ زخمی اور ہلاک بھی ہو جاتے ہیں ۔معاملہ کی گھمبیرتا کا سبھی کو احساس ہے ،ہر کوئی زبان سے تسلیم بھی کرتا ہے۔
پورا ملک تکلیف میں ہے اور معیشت کا براحال کارخانے ،فیکٹریاں ،ادارے بندہونے سے بیروزگاری میں مسلسل اضافہ۔شکایت کا انبار،گلے شکوے ،محرومیوںکا رونا روتے رہناشاید فیشن بن گیاہے لیکن جن کے پاس اختیارہے ان میں سے جن کے مخصوص مفادات ہیں انہوںنے کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، کچھ نے ڈرکے مارے مستقل چپ کا روزہ رکھ لیاہے، کئی گم سم ہیں۔۔ اوراکثریت کا حال یہ ہے کچھ نہ کرنا۔کچھ نہ کرنے دینا۔کچھ نہ سوچنا ،کڑھتے رہنا مقدر جان لیاہے۔ بشر بشربے سکون، دن کو چین نہ رات کو قرار،یہ تکلیف گواراہے بجلی پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بناہواہے نئے آبی ذخائر کی ضرورت سب کو ہے اہمیت سے سب آشنا پھر سال ہا سال سے کالا باغ ڈیم بننے کی کیوں مخالفت ہورہی ہے؟
اس وطن میں ملک و قوم کے مجموعی مفاد پر بھی سیاست ہورہی ہے بدقسمتی سے سمجھانے والا کوئی نہیں اور اب تو اس کے بھیانک نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں تھرپارکر میں ہرسال سینکڑوں ہلاکتیں ،قحط سالی، بوند بوند کو ترستے چرند، پرند اور بھوک سے بلکتے بچے۔۔۔ چولستان اور دور دراز کے علاقوں کی صورت ِ حال بھی اس سے مختلف نہیں مگر با اختیار لوگوں کی وہی تنی گردن اور کالا باغ ڈیم نہ بنانے کی گردان ۔ہرقسم کے احساس سے عاری جذبات ۔۔اس کے بر عکس بے اختیاروںکی آہ وبکاہ،آہیں ،سسکیاں اور بددعائیں بھی رنگ نہیں لاتیں۔۔ اس اجتماعی بے حسی پردل خون کے آنسوروتاہے کہ پنجاب کا روزانہ لاکھوں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے جس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب کی جاسکتی ہے لہلہاتی کھیتیاں 22کروڑ پاکستانیوں کی غذائی ضروریات سے زیادہ اجناس پیدا کر سکتی ہے جس سے ملک میں خوشحالی در آئے گی حیف صد حیف ! جو پانی کارآمد لایا جا سکتاہے وہ دریائوں میں جاکرضائع ہورہاہے قوم پرستوںکو صرف اپنی سیاست چمکانے سے غرض ہے مخصوص نظریات پر راسخ ہوکر لکیر کے فقیر بنے رہنا آپ سے آپ سے دشمنی ہے کاش ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں دنیا قیامت کی چال چل رہی ہے اور ہم ہیں کہ ابھی تک لوڈشیڈنگ کا رونا روتے پھرتے ہیں جب تک نئے آبی ذخائر قائم نہیں کئے جاتے یہ تو رونا مستقل ہے عقلی دلیلیں،زمینی حقائق،حالات کی نزاکت اور دم توڑتی معیشت بارے سب جانتے ہیں قوم پرستوں کا کیا کیجئے جنہوںنے قسم کھا رکھی ہے کالاباغ ڈیم کسی قیمت پرنہیں بننے دیں گے یہ منصوبہ جتنا قابل ِ عمل ہو اس پرکام کرنے دیا جائے اس کے مضمرات و فوائد پر بات ہو سکتی ہے سب سے بڑھ کر اجتماعی فائدے کیلئے کچھ قربانی بھی دینا پڑے تو سودا مہنگا نہیں ہوتا سمجھ نہیں آتی اپنے ہی بچوں کے مستقبل سے کھیلنا کہا ںکی عقلمندی ہے بغور جائزہ لیا جائے تو یقینا دل گواہی دے گا یہ قوم پرستی نہیں قوم دشمنی ہے
خوشہ چینوں سے کہو روک لیں ہاتھوں کو یہی پھل تمہارے ہی سہی پیڑتو پھل جانے دو
ہنگامے، احتجاج ، مظاہرے، جلسے، جلوس ، ریلیاںاور جلائو گھیرائو بدامنی گواراہے لیکن مسئلے کا اصل حل کیوں تلاش نہیں کیا جا تا۔ خدارا!سوچئے کیاچند لوگوںکی ہٹ دھرمی کی سزا پورے پاکستان کو دینا انصاف ہے؟ اندھیرے کب تلک ہمارا مقدر بنے رہیں گے۔۔۔ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہمیںپتھر کے دور میں کیوں دھکیلا جارہاہے؟ ناقد کہتے ہیں ڈیم تو اور بھی بنائے جا سکتے ہیں بجلی حاصل کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں بھاشا۔۔نیلم ۔ونڈ ،تھرمل ،سولر۔۔کوئلے سے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے پھر کالا باغ ڈیم پرہی اصرار کیوں؟بھاشا ڈیم کی حقیقت سے لوگ شایدہی واقف ہوں یہ ”ٹکے کی بڑھیا روپیہ سر منڈوائی ”کی جیتی جاگتی کہاوت ہے ضیاء الحق سے لے کر نوازشریف تک کم وبیش 6صدور اور وزرائے اعظم اس منصوبے کا افتتاح کرچکے ہیں سب کے ناموںکی الگ الگ تختیاں اویزاں ہیں کچھ کی باقیات اب بھی موجود ہوں گی کروڑوں روپے صرف کئے جانے کے باوجود تاحال ایک یونٹ بھی پیداوار نہیں،زرداری دور میں اربوں کا پراجیکٹ ونڈ (ہوا سے بجلی )کااعلان کیا گیا اس کا حشر بھی نہ جانے کیاہوا کوئی نہیں جانتا۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کیلئے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا حلق کوئلے سے بجلی بنانے کیلئے دہائیاں دے دے کر خشک ہوگیاہے پھرڈاکٹر مبارک ثمرمند نے ایک انقلابی پروگرام دیاوہ اس کیلئے فنڈز مہیا بھی کئے گئے لیکن اس کا کیا ہوا کوئی نہیں جانتا؟ ۔ایک سابقہ چیف جسٹس نے ڈیم بنانے کی تحریک شروع کی کچھ فنڈزبھی اکھٹے کئے گئے ان کے جانے کے بعد یہ تحریک بھی دم توڑ گئی اب اس کا سٹیٹس تک معلوم نہیں موجودہ حکومت نے بھی بہت سے پاور پراجیکٹ کااعلان کر رکھا ہے۔
بیشتر ماہرین کا کہناہے کہ پانی سے بجلی پیدا کرنا زیادہ سہل اور سستاہے اور اس کیلئے محل ِ وقوع،پانی کی قدرتی گذرگاہ اور نتائج کے اعتبار سے کالا باغ ڈیم ہی The Bestہے روزانہ لاکھوں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے جس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب کی جاسکتی ہے لہلہاتی کھیتیاں 20کروڑ پاکستانیوں کی غذائی ضروریات سے زیادہ اجناس پیدا کر سکتی ہے ۔بجلی پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بناہواہے ۔نہ جانے کیوں کچھ لوگوںکو ترقی گوارا نہیں۔۔ خدا جانے وہ ہمیںپتھر کے دور میں رہنے پر کیوں اصرار کررہے ہیں۔ قوم نے اگر ہنگامے، احتجاج ، مظاہروں، جلسے، جلوس ، ریلیوں، آنسو گیس اور گولیاں برسانے کو ہی زندگی سمجھ لیا ہے توکوئی کیا کرے ؟لیکن حکمرانوںکی ترجیحات نرالی ہیں انہوںنے ترقی کا معیار میٹرو سمجھ لیا ہے کوئی کیا کرے؟ حکمرانوںنے بڑھکیں لگانا اپنا معمول بنا لیاہے سابقہ حکمرانوں کے بے مقصد منصوبے اور میگا پراجیکٹ بے چارے عوام بجلی اور پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں اس کا مطلب ہے یہ حکمران ہمیں جان بوجھ کر پتھرکے دور میں زبردستی دھکیلنا چاہتے ہیں ایک امریکی صدرنے پاکستان کو پتھرکے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دی تھی اس کے ہاتھوںتو ہماری بچت ہوگئی لیکن ہمارے حکمران ہمیں جیتی جان زبردستی پتھرکے دور میں دھکیلنے کیلئے بھرپور توانائیاں صرف کررہے ہیں شاید امریکی ایجنڈے کی تکمیل اس طرح ہونی ہے۔ اللہ پاکستانی قوم پررحم فرمائے حقیقت یہ ہے کہ جب دلوںسے احساس ِ زیاںہی جاتا رہے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔