تحریر : شیخ خالد زاہد ہم نے پڑھا ہے اور بخوبی تجزئیے سے بھی ثابت ہوا ہے کہ جہاں دو بڑی قوموں کے درمیان تنازع ہو وہاں اقوام متحدہ نہیں ہوتی ، جہاں ایک طاقتور ملک ہو اور دوسرا کمزور تو وہاں کمزور ملک نہیں رہتا اقوام متحدہ وہاں بھی دیکھائی نہیں دیتی اور جہاں دونوں ہی کمزور قومیں ہوں وہاں اقوام متحدہ کچھ کردار نبھانے پہنچ جاتا ہے۔ اس ادارے کو بنانے کا بنیادی مقصد ملکوں کے درمیان تصادم کو روکنا تھا اور معاملات کو میزوں پر بیٹھ کر حل کروانا تھا۔ میرے محدود علم میں نہیں کہ اقوام متحدہ نے کبھی بھی اپنا بنیادی مقصد نبھایا ہو ک، مسلۂ کشمیر اور فلسطینیوں کی جدوجہد دنیا کیلئے مثالیں ہیں۔ اقوام متحدہ کیوں افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی کیونکہ دوسری طرف ایک بہت بڑاملک ہے۔ جب اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیمیں اپنا وجود صرف کاغذوں اورٹھنڈے کمروں تک محدود کرلیتی ہیں تو دنیا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ دنیا دہشت گردی کے آسیب میں مبتلا ہے مگر یہ تنظیمیں اپنے کردار کو منوانے سے قاصر دیکھائی دے رہی ہیں اور کہیں دیکھائی نہیں دے رہیں۔ انسانیت کی خدمت کے علم بردار انسانیت کی تفریق کر بیٹھے ہیں ۔
گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان نے دنیا کے ہر ملک میں ہونے والی دہشت گرد ی کے پیش آنے والے واقعات کی بھرپور انداز میں مذمت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے بھرپور ہر ممکن حمایت کاپیغام بھی پہنچایاجاتا رہا ہے ۔گزشتہ دنوں امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک خطاب میں کچھ ایسی گفتگو فرمائی جس سے یہ محسوس ہوا کہ وہ اپنی مقبولیت کاتیزی سے گرتے ہوئے گراف کو اوپر کی جانب لے جاناچاہتے ہوں۔ دوسری طرف یہ تاثر بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اپنی انتظامیہ اور فوج کی کارکردگی سے مطمعن نہیں ہیں ، کیونکہ یہ بات وہ بلواسطہ تو کہہ نہیں سکتے اسلئے بلاواسطہ سمجھانے کی کوشش کی ہو۔ امریکی فوجی دنیا پر امریکی برتری ثابت کرنے کی جدوجہد میں افغانستان میں اپنی زندگیاں گنوا رہے ہیں جسکی وجہ سے فوجی ہی نہیں انکے خاندان والے بھی ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں۔
دنیا میں جاری دہشت گردی سے جتنا نقصان پاکستان ابتک اٹھا چکا ہے شائد ہی کسی اور ملک نے اتنا نقصان اٹھایا ہو۔ امریکی صدر نے اپنی اور اپنے تھنک ٹینک کی ناکامیوں کا سہرا پاکستان کے سر پر سجانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں آکر دہشت گردی کرتے ہیں۔ امریکی صدر سے کوئی یہ پوچھ ہی نہیں سکتا کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے محفوظ ٹھکانے کہاں کہاں ہیں ۔ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے آج تک پاکستان کو استعمال کرتا آیا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی چاہتا ہے بلکہ اس تقریرسے تو یہ پیغام آیا ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ یعنی پاکستان اپنی سالمیت کی پریشانی چھوڑدے اپنی معیشت کو تباہ ہونے دے اور افغانستان میں جاکے امریکی مفاد کی جنگ لڑے۔
پرائی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان خارجی اور داخلی مشکلات میں بری طرح سے گھرتا چلا گیا مگر کسی بیرونی عسکری امداد کے بغیر ان مشکلات سے لڑ رہا ہے۔سوات میں کیا جانے والا آپریشن، آپریشن ضرب عضب، آپریشن خیبر ۴ اور آپریشن ردالفساد اس بات کی گواہی ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں سے کتنے آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہا ہے ۔ پاکستان کی قربانیوں کا جس طرح سے امریکی صدر ڈولڈٹرمپ نے استحصال کیا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ایک بار پھر اپنی دوستی کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے امریکی صدر کی تقریر میں پاکستان سے کئے گئے مطالبات پرشدید تنقید کی ہے ۔جبکہ ابھی تک پاکستان خود کوئی پالیسی بیان نہیں دے سکا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کو چاہئے کہ امریکی صدر کی اس زبانی دہشت گردی کا جواب پاکستان کی جانب سے دی گئی ایک ایک قربانی کا تذکرہ تحریرکر کے ناصرف انکے دفتر ارسال کریں بلکہ دنیا کے تمام ممالک کو ، اقوام متحدہ کو بھیجیں، اس دستاویز میں خصوصی طور پر جو ہمارے معصوم بچوں نے کس طرح سے اپنی زندگیوں کا نظرانہ ان دہشت گردوں کو پیش کیا، کیسے ہمارے مستقبل کے معماروں کے استادوں اور استانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ، ہمارے بزرگوں نے مسجدوں میں سجدوں میں اپنی زندگیاں گنوائیں ، کس کس محاذ پر اور کس کس طرح ہمارے جوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا ، ہر ایک قربانی کا تذکرہ جلی حروف میں لکھیں اور اسے بین الاقوامی میڈیا کہ سامنے پیش کریں دنیا کے ہر فورم پر پیش کریں۔ امریکی صدر کو اندازہ تو ہو کہ یہ قوم موت سے تو ڈرتی ہی نہیں ہے ۔ اس قوم نے تو وہ قرض بھی چکائے ہیں جو واجب ہی نہیں تھے۔
اگر امریکی صدر اور انکی انتظامیہ کو ہماری دہشت گردی کیخلاف جنگ نہیں دیکھائی دے رہی اور انکو بھارت کا کشمیریوں پر ڈھایا جانے والا ظلم و ستم نہیں دیکھائی دے رہا تو پھر ہمیں اپنا واضح موقف تمام ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھ دینا چاہئے کہ اب وہ فیصلہ کریں اور بتائیں کے پاکستان نے کب اور کہاں اس جنگ میں کوتاہی برتی ہے ۔ امریکہ کے صدر کی یہ زبانی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے جو معصوم پاکستانیوں کو دھمکا رہے ہیں۔